انتخابات ‘ مسلمان تختہ مشق

   

ہر تجلی میں جدا گانہ مناظر دیکھے
تیری محفل کو ہم اک آئینہ خانہ سمجھے
ملک میں 2024 کے پارلیمانی انتخابات کئی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے جو الگ الگ عزائم ہیں ان کے مطابق یہ جماعتیں اپنی مہم چلاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو اس نے سیدھے سیدھے انتخابی عمل کی ساکھ کو ہی متاثر کرکے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں کو انتخابی عمل کے دوران تختہ مشق بنادیا ہے ۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی سماج میں نفرت کو مزید گہری کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر پارلیمانی امیدوار تک ہر تقریر میں ہندو ۔ مسلم کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے بعد جب یہ اشارہ ملنے لگا کہ بی جے پی کو عوامی تائید سے محروم ہونا پڑ رہا ہے تو بی جے پی کی جانب سے انتخابی مہم کی ہئیت ہی تبدیل کردی گئی ۔ بی جے پی نے مسائل پر پہلے بھی کوئی خاص بات نہیں کی ہے اور بی جے پی قائدین کی تقاریر میں عوام کو درپیش مسائل سے زیادہ نزاعی اور اختلافی امور پر ہی توجہ دیا کرتے تھے ۔ انتخابات کے پہلے مرحلہ کی تکمیل سے قبل تک بی جے پی کے کچھ غیر ذمہ دار قائدین کی جانب سے دستور میں تبدیلی کی بات کی جا رہی تھی ۔ دستور میں تبدیلی کے تعلق سے جب کانگریس نے عوام میں شعور بیدار کرنا شروع کیا تو سیدھے سیدھے ہندو ۔ مسلم کی رٹ لگانی شروع کی گئی ہے ۔ وزیر اعظم نے غیر مسلم خواتین میں یہ خوف پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر کانگریس برسر اقتدار آجائے تو ان کے منگل سوتر تک چھین لے گی اور انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائیگا ۔ یہ انتہائی احمقانہ بات تو تھی ہی لیکن ساتھ ہی یہ انتہائی اشتعال انگیز بھی تھی ۔ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اس کی غیر جانبداری سے ہر کوئی واقف ہی ہوچکا ہے ۔ اس پر مزید تبصرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نے ہندو ۔ مسلمان کی تقریر کرتے ہوئے دوسرے قائدین کو یہ پیام دیا کہ انہیں آئندہ مراحل کی انتخابی مہم میں کیا رخ اختیار کرنا ہے اور یہ سلسلہ اس کے بعد سے مسلسل دراز ہی ہونے لگا ہے ۔
بات صرف وزیر اعظم پر رک نہیں گئی بلکہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں اور ایس سی ‘ ایس ٹی اور دیگر طبقات کے مابین خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ ایس سی ‘ ایس ٹی اور دیگر طبقات کے تحفظات مسلمانوں کو دئے جانے کی اجازت نہیں دینگے ۔ مسلمانوں کو جو تحفظات دئے گئے ہیں وہ کسی طبقہ یا ذات پات سے چھین کر نہیں دئے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں مذہب کی بنیاد پر دیا گیا ہے ۔ در اصل یہ تحفظات مسلمانوں کی معاشی ‘ تعلیمی ‘ سیاسی اور سماجی پسماندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا ہے ۔ تاہم یہاں اصل مقصد سماج میں نفرت کو ہوا دینا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے مختلف طبقات میں نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اسی طرح اب یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اگر کانگریس کو ووٹ دیا گیا تو مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے گی ۔ یہ در اصل بی جے پی کی سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے جو اسے عوام کی مخالفت کے اندیشوں کے تحت لاحق ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے بی جے پی اور اس کے قائدین کی ذہنی کیفیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر منفی اور بیمار ذہنیت کے حامل ہیں۔ مذہبی جنون ہی اب ان کیلئے واحد راستہ اور سہارا رہ گیا ہے ۔ اسی وجہ سے سارے ملک میں صرف اور صرف مسلمانوں کو تختہ مشق بنادیا گیا ہے اور ان کے تعلق سے ریمارکس اور تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ملک اور عوام کو درپیش جو مسائل درپیش ہیں ان کی یکسوئی کے منصوبوں پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے ۔
سوشیل میڈیا کا بھی اس معاملے میں خطرناک حد تک استعمال کیا جا رہا ہے ۔س وشیل میڈیا پر بھی ایسے ویڈیوز بناتے ہوئے وائرل کئے جارہے ہیں جن میں مسلمانوں کو رسواء کیا جا رہا ہے ۔ ان کے تعلق سے دیگر ابنائے وطن میں نفرت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ملک کے تمام رائے دہندوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان سارے امورکو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایسی نفرت انگیز کوششوں کا انہیں اپنے ووٹ کے ذریعہ جواب دینا چاہئے ۔ ووٹ کی طاقت کو سمجھنا چاہئے اور اس کے موثر اور بہتر استعمال کو یقینی بنانا آج ہر شہری کی ذمہ داری بن گئی ہے اور اس سے کسی کو پہلو تہی نہیں کرنی چاہئے ۔
کورونا ٹیکہ کی سچائی ‘ ذمہ دار کون؟
جس طرح ملک میں یکے بعد دیگر مختلف معاملات کی سچائی سامنے آ رہی ہے اسی طرح اب کورونا ٹیکہ کی بھی سچائی سامنے آئی ہے ۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ جو کورونا ٹیکے ملک میں پورے زور و شور سے دئے گئے تھے اور ان ٹیکوں کے سرٹیفیکٹ جس طرح بانٹے گئے تھے ان کے مضر اثرات بھی اب ٹیکہ لینے والوں پر مرتب ہونے لگے ہیں۔ مرکزی حکومت نے جس طرح ٹیکہ اندازی مہم کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہوئے پیش کیا تھا اور ٹیکہ اندازی سرٹیفیکٹ پر وزیر اعظم مودی کی تصویر تک شائع کی گئی تھی اس سے ملک بھر میں ایک تاثر یہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ حکومت نے ملک کے سارے عوام پر احسان کیا ہے اور کوئی دوسری حکومت ایسا نہیں کرسکتی تھی ۔ اب جبکہ کورونا ٹیکوں کے مضر اثرات کی حقیقت سامنے آئی ہے تو اس کی بھی ذمہ داری مرکزی حکومت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے سرٹیفیکٹ پر وزیر اعظم کی تصویر لگائی گئی تھی اسی طرح اب اس سارے معاملہ کی ذمہ داری بھی وزیر اعظم کو قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم اس کی امید کرنا ہی فضول ہے کیونکہ وزیر اعظم اور حکومت ہر کارنامہ کا سہرا اپنے سر اور ناکامی کا ٹوکرا کانگریس کے سر باندھنے کے عادی ہیں۔