انتخابی موسم ‘ تمام طبقات اپنی نمائندگی بڑھانے کوشاں‘ مسلمان ہنوز خواب غفلت میں

   

٭ سیاسی جماعتوں سے حق مانگنے کی بجائے آپسی خلفشار کا شکار
٭ مسلمانوں سے حکومت کی مسلسل غفلت پر سوال کرنے تیار نہیں
٭ بی آر ایس کو مسلمانوں کی پارٹی سے دوری اور ناراضگی کا احساس
٭ ریاست میں مسلم ووٹ کی اہمیت گھٹانے کی منصوبہ بندی

حیدرآباد20 اگسٹ(سیاست نیوز) ریاستی اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے سوا تمام طبقات مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس و بھارت راشٹرسمیتی میں اپنے طبقہ کیلئے نمائندگیوں کیلئے کوشاں ہیں جبکہ مسلمان دونوں ہی جماعتوں میں اپنا حق طلب کرنے میںبڑی حد تک ناکام ہیں۔ تلنگانہ میں ایس ۔سی ‘ ایس ۔ٹی اور بی سی طبقہ کے قائدین اپنی پارٹی میں قائدین کو اپنے طبقات کی نمائندگی کو یقینی بنانے مجبور کر رہے ہیں جبکہ مسلمان اب بھی اپنے حق کیلئے کوشش کے بجائے آپسی اختلافات کا شکار اور اپنے وزراء کی خوشامد پسندی میں مصروف ہیں۔ بی آر ایس میں سابق وزیر مسٹر ایٹالہ راجندر کے پارٹی سے علحدہ ہونے کے بعد بااثر مدیراج قائد کی کمی کو دور کرنے پارٹی میں موجود مدیراج طبقہ کے قائدین اپنا اثر دکھا رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ بی آر ایس میں مدیراج طبقہ کو اس کا مستحقہ مقام فراہم کیا جائے ۔ اس کے علاوہ منور ‘ کاپو اور مادیگا طبقات کے قائدین اپنے موقف کو مستحکم بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور پارٹی قیادت کوتاثر دینے میں کامیاب ہورہے ہیں کہ تلنگانہ میں اگر ان طبقات کے ووٹ سے اگر پارٹی محروم ہوتی ہے تو اسے اقتدار حاصل نہیں ہوگا ۔ بھارت راشٹرسمیتی مدیراج‘ کاپو ‘ مادیگا کے علاوہ منور کاپو طبقات کے ووٹ حاصل کرنے انہیں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کے علاوہ بہتر مواقع فراہم کرکے چھوٹے طبقات کو بھی خوش کرنے کی پالیسی اختیار کر رہی ہے جبکہ برسراقتدار جماعت کی جانب سے ریاست میں مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے یا انہیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنے مجرمانہ خاموشی اور اقلیتی قائدین کی بی آر ایس میں کوئی اہمیت نہ ہونے کے باوجود حکومت کی چاپلوسی کو دیکھتے ہوئے ریاست کے عام مسلمانوں نے مخالف بی آر ایس ووٹ کے استعمال کا ذہن تیار کر لیا ہے ۔ کرناٹک انتخابی نتائج کے بعد سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں تبدیلیوں اور مسلم ۔دلت ووٹ کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کے درمیان برسراقتدار جماعت میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ تلنگانہ میں بی آر ایس کا کوئی متبادل نہیں ہے جبکہ کانگریس کو کرناٹک میں حاصل ہونے والی کامیابی کے بعد اس بات کا یقین ہے کہ تلنگانہ میں مسلمان متحدہ اپنے ووٹ کا استعمال کانگریس کیلئے کریں گے اور حکومت سے بدظن دلت طبقات بھی کانگریس کو اقتدار دلوانے میں معاون ثابت ہونگے کیونکہ حکومت سے دلت طبقات کیلئے ’دلت بندھو‘ اسکیم سے محروم دلتوں کی بڑی تعداد حکومت سے ناراض ہے اور بی آر ایس کے حق میں ووٹ کے استعمال کے حق میں نہیں ہے۔ریاست میں بدلتے سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے پسماندہ طبقات میں شامل کئی طبقات کی تنظیموں اور قائدین کی جانب سے کانگریس میں اپنا اثر ورسوخ پیدا کرنے اور کانگریس میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی میں مقام حاصل کرنے کی کوشش کے علاوہ اپنے طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں اور کہا جار ہاہے کہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے قائدین بی آر ایس سے دوری اختیار کرکے کانگریس کو مستحکم بنانے میں مصروف ہیں جبکہ ریاست میں مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں نے اب تک ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے حالانکہ اس بات کو اب حکومت بھی تسلیم کرنے لگی ہے کہ تلنگانہ میں مسلمان بی آر ایس کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ حکومت نے ان سے جو وعدے کئے تھے ان میں کسی ایک کو بھی پورا نہیں کیاجس کی وجہ سے مسلمانوں میں ناراضگی ہے۔اسی لئے اب بی آر ایس نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے تحت وہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے انکے ووٹ کی اہمیت کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں مسلمانوں کے ووٹ بے وقعت ہوکر رہ جائیں۔