انتخابی مہم میںفرقہ واریت

   

مانگا کریں گے اب تو دُعا ہجریار کی
آخر کو دِشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ

ہندوستان بھر میں اور ملک کی تقریبا تمام ریاستوں میں جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں تو انتخابی مہم شدت کے ساتھ چلائی جاتی ہے ۔ تمام امیدواروںاور سیاسی جماعتوں کی جانب سے رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ انتخابی مہم میں فرقہ واریت کادخل زیادہ ہوگیا ہے ۔ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے رائے دہندوںکو حقیقی مسائل سے بھٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں بھڑکاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرلئے جاتے ہیں۔ یہ کوشش در اصل جمہوری عمل کا مذاق بنانے کے مترادف ہی ہے ۔ کئی گوشوں سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ انتخابی مہم کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیدیا گیا ہے ۔ عوام کی توجہ انہیں درپیش مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے ۔ انہیں مہنگائی اور روزگار کے مسائل پر توجہ دینے کا موقع نہیںدیا جا رہا ہے ۔ انہیں ابتر معاشی صورتحال پر غور کرنے سے عملا روکا جا رہا ہے ۔ انہیں ملک میں پیدا کئے جانے والے ماحول کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کا موقع نہیں مل رہا ہے ۔ یہ ساری صورتحال محض اس لئے پیدا ہو رہی ہے کیونکہ انتخابی مہم کو بھی عوامی اور قومی و ریاستی مسائل کے گرد رکھنے کی بجائے فرقہ وارانہ رنگ دیدیا گیا ہے ۔ سیاسی قائدین اور امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم میںنزاعی اور اختلافی مسائل کو موضوع بحث بناتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال پہلے بھی ہوا کرتی تھی تاہم اس وقت مقامی قائدین میں کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا تھا ۔ بڑے اور ذمہ دار عہدوںپر فائز قائدین ایسی باتوں سے گریز کیا کرتے تھے تاہم اب افسوس اس بات کا ہے کہ اعلی ترین عہدوں پر فائز اور ذمہ دار ترین عہدوںپر براجمان افراد بھی انتخابی مہم کے دوران انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ کہیں تقاریر میں قبرستان اورشمشان کا تذکرہ ہو رہا ہے تو کہیںحجاب اور حلال کی بات کی جا رہی ہے ۔ کبھی پڑوسی ملک کا نام لیا جا رہا ہے تو کبھی کوئی اور مسئلہ اچھالا جا رہا ہے ۔
اب صورتحال اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ بیرونی ممالک بھی اس پر رائے زنی کرنے لگے ہیں۔ ہندوستان میں امریکہ کی ناظم الامور نے بھی اب کہا ہے کہ امریکہ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے مسئلہ پر ہندوستانی عہدیداروں سے اکثر و بیشتر بات کرتا ہے اور یہ مسئلہ بات چیت میں موضوع بحث بنایا جاتا ہے ۔ حالانکہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی بیرونی ملک کو کسی طرح کی مداخلت یا تبصرہ کا کوئی حق نہیں ہے چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو لیکن ہمیں خود اپنے طور پر اس مسئلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں صورتحال کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا ۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابات میں مقابلہ انتخابی قوانین کے مطابق کیا جائے ۔ سیاسی اختلاف کو سیاسی اختلاف تک محدود رکھا جائے ۔ اسے شخصی دشمنی یا عناد میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اسے عوامی مسائل کے گرد ہی رکھنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کو اپنے کارنامے عوام میں پیش کرنے چاہئیں۔ اپوزیشن جماعتوںکو اپنے منصوبوں کو پیش کرتے ہوئے عوام کی تائید اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ ملک کی ترقی اور مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیشرفت سے عوام کو واقف کروایا جانا چاہئے ۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتری اور انہیںمسائل سے نجات دلانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی تفصیل سے بھی عوام کو واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس ساری صورتحال کو یکسر بدل دیا گیا ہے اور صرف اور صرف فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ۔
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ ہماری جمہوریت دنیا بھر میںمنفرد بھی کہی جاتی ہے ۔ یہاں عوام اپنے ایک ووٹ کے ذریعہ کسی کی سیاسی قسمت کو بدل سکتے ہیں ۔ کسی کو اقتدار پر فائز کرتے ہیں تو کسی کو اقتدار سے بیدخل بھی کرتے ہیں۔ یہی جمہوریت کی خوبصورتی بھی ہے ۔ تاہم اب جس طرح کی انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور جس طرح کی دوسری بدعنوانیاں شروع کردی گئی ہیں وہ ہماری جمہوریت کو کھوکھلا کرنے لگی ہے ۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوںاور تمام قائدین کو صورتحال کو سمجھنے اور مستقبل میں جمہوریت کو داغدار کرنے والی مہم سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔