انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں

,

   

مودی یا مہاراجہ …ہزاروں خواہشیں ایسی
علامہ اقبال سے بھی نفرت …تاریخ سے فرار ممکن نہیں

رشید الدین
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا کچھ یہی حال ہے۔ گجرات کے چیف منسٹر سے ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچنے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرا۔ یوں بھی تو انسان اکثر و بیشتر لالچی اور زیادہ کا خواہشمند ثابت ہوا ہے۔ پیدل سوار کو سائیکل مل جائے تو موٹر سائیکل، موٹر سائیکل مل جائے تو کار۔ اسی طرح آگے کی خواہش ہوتی ہے۔ سیاسی میدان میں یہی حال ہے۔ کارپوریٹر سے چیف منسٹر اور رکن پارلیمنٹ سے وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ چیف منسٹر اور وزیر اعظم بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن اُمید تو برقرار رہتی ہے پتہ نہیں کس وقت قسمت جاگ جائے۔ نریندر مودی کا سفر ریلوے پلیٹ فارم سے شروع ہوا، اور قسمت کی یاوری دیکھیئے کہ پلیٹ فارم پر چائے فروخت کرنے والا شخص آج اُسی پلیٹ فارم سے نئی ٹرینوں کو جھنڈی دکھا رہا ہے۔ ایل کے اڈوانی کا ہاتھ تھام کر پہلے چیف منسٹر اور پھر وزیر اعظم کے تخت پر براجمان ہوگئے۔ سیاسی طور پر وزارتِ عظمیٰ آخری بلند عہدہ ہے لیکن نریندر مودی کا حال ’’ یہ دل مانگے مور‘‘ کے اڈورٹائزمنٹ کی طرح ہے۔ وزارتِ عظمیٰ پر 9 سال کی تکمیل کے باوجود مودی کا دل بھرا نہیں اور وہ خود کو راجہ، مہاراجہ کے رول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوری نظام میں وزیر اعظم کا رول ادا کرتے ہوئے شاید وہ بور ہوچکے ہیں اور کسی راجہ اور مہاراجہ کی طرح ٹھاٹ باٹ دکھانا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی ہر معاملہ کو ایونٹ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر چند گھنٹوں کیلئے نریندر مودی مملکت ہندوستان کے مہاراجہ اور شہنشاہ دکھائی دے رہے تھے۔ ان دنوں مودی شاید تاریخی فلموں کا مشاہدہ کرتے ہوئے راجہ ، مہاراجہ کی زندگی سے بے حد متاثر ہیں۔ مودی کا بس چلے تو وہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے جمہوریت کو تاناشاہی اور بادشاہت میں تبدیل کردیں گے۔ ہر لمحہ اور ہر موڑ پر نئے رنگ میں دکھائی دینے کا ہُنر کوئی وزیر اعظم سے سیکھیں۔ لاکھوں روپئے کا سوٹ بوٹ اور روزانہ کئی لباس تبدیل کرنا مودی کا روز کا معمول ہے۔ ہاں ! تو ہم بات نئے پارلیمنٹ کے افتتاح کی کررہے تھے۔ افتتاحی تقریب کے ہر لمحہ اور ہر موڑ پر نریندر مودی نے کسی مہاراجہ کا رول انتہائی مہارت کے ساتھ ادا کیا۔ نئی پارلیمنٹ میں مودی کی اِنٹری نے فلم ’ مغلِ اعظم ‘ میں پرتھوی راج کپور ( اکبر اعظم ) کی یاد تازہ کردی۔ تنہا شاہانہ انداز میں مودی پیدل چل کر طویل فاصلہ طئے کرتے ہوئے عمارت کے باب الداخلہ پر پہنچے۔ یہ منظر اکبر اعظم کے اولاد کی خواہش میں کسی بزرگ کے دربار تک فلم میں پیدل چلنے کی یاد دلارہا تھا۔ مغلوں کی مخالفت اپنی جگہ لیکن ان کی ایکٹنگ کرنے کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ آج تک بھی اکبر اعظم کے جلال اور شاہانہ انداز کی مثال شاید ہی کسی اور شہنشاہ نے پیش کی ہو۔ ویدک پنڈتوں کے ساتھ سنگول تھامے ہوئے پارلیمنٹ میں داخلہ اور پھر لیٹ کر سنگول کی تعظیم کرنا یہ ظاہر کررہا تھا کہ مودی شاہی دور میں پہنچ چکے ہیں۔ ٹاملناڈو میں حکمرانوں کو تاریخی مندر کی جانب سے سنگول کے تحفہ کو اقتدار کی منتقلی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو انگریزوں کی جانب سے آزادی کے وقت سنگول دینے کی جھوٹی کہانی گھڑی گئی۔ خیر ! ہندوستان میں فی الوقت نریندر مودی جو چاہیں میڈیا وہی دکھاتا ہے چاہے اس کے لئے جھوٹی کہانی کیوں نہ بیان کرنا پڑے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سنگول نصب کیا گیا جبکہ پارلیمنٹ اور خود نریندر مودی کیلئے سنگول کی نہیں بلکہ دستورِ ہند کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے باب الداخلہ پر دستور کی کاپی علامتی طور پر رکھی جانی چاہیئے تھی تاکہ حکومت اور پارلیمنٹ کے فیصلے دستور کے تابع رہیں۔ افتتاحی تقریب کو مکمل طور پر مذہبی رنگ دیا گیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے یہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ کسی مندر کا افتتاح ہورہا ہو۔ پارلیمنٹ کے باہر کُل مذاہب دعائیہ اجتماع کیا گیا جس میں قرآن مجید کی تلاوت بھی شامل تھی لیکن اندرونی حصہ میں مہاراجہ نے اقتدار کی باگ ڈور سنگول کے ساتھ سنبھالی۔ افتتاحی تقریب سے صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ کو دور رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ مودی کے علاوہ کوئی اور نام کیسے برداشت ہوگا۔ ایک دن کیلئے سہی نریندر مودی شاہی دور میں کھوچکے تھے، اچھا ہوا کہ الیکشن سے قبل مودی نے اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کرلی۔ پتہ نہیں آئندہ چناؤ میں کون وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوجائے اور مودی کو اقتدار کی منتقلی کی علامت سنگول حوالے کرنا پڑے۔ جس وقت مہاراجہ نریندر مودی اقتدار کی منتقلی کا کھیل‘ کھیل رہے تھے اس کے بالکل قریب میں خاتون ریسلرس کے ساتھ پولیس غیر انسانی اور بے رحمانہ سلوک کررہی تھی۔ دنیا بھر میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والی خاتون پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے بی جے پی رکن پارلیمنٹ کو جیل بھیجنے کے بجائے مودی حکومت تحفظ کررہی ہے۔ سارے ملک نے ایک آواز ہوکر خاتون ریسلرس کے مطالبات کی تائید کی لیکن ’’ بیٹی بچاؤ۔ بیٹی پڑھاؤ ‘‘ کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کو بیٹیوں کا دَرد محسوس نہیں ہوا۔ مودی حکمرانی کی خصوصیت یہ رہی کہ انہوں نے کسی بھی ایسے مسئلہ پر اپنی زبان نہیں کھولی اور نہ ’ من کی بات‘ عوام تک پہنچائی جس کے ذریعہ حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے واقعات ہوں یا پھر عبادت گاہوں پر حملے، کسی بھی معاملے میں مودی نے تبصرہ نہیں کیا۔ دہلی میں کھلے آسمان کے نیچے ملک کیلئے گولڈ میڈل حاصل کرنے والی خاتون ریسلرس سے ہمدردی کا ایک لفظ بھی مودی تو دور کی بات ہے حکومت کے کسی نمائندہ نے ادا نہیں کیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ خاتون ریسلرس کے مطالبات کے بارے میں سوال کرنے پر مرکزی وزیر میناکشی لیکھی کو باقاعدہ میڈیا سے بچنے کیلئے اپنی گاڑی تک دوڑ لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ شاید میناکشی لیکھی اسپورٹس مین کے بارے میں سوال پر اپنی اسپورٹس مین صلاحیت کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ ایک خاتون وزیر جب خاتون ریسلرس کا دَرد محسوس نہ کرے تو پھر انصاف کی اُمید کس سے کی جائے گی۔
نریندر مودی کے 9 سالہ دور حکومت میں نفرت کے ایجنڈہ کا کچھ اس طرح پرچار کیا گیا کہ سارے ملک میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ مندروں کے قریب سے مسلم تاجروں کو بے دخل کردیا گیا۔ مساجد سے اذان کی آواز بند کردی گئی۔ مسلمانوں کو کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مسلم طالبات کو حجاب سے روکتے ہوئے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی سازش کی گئی۔ مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں سے منسوب شہروں ، علاقوں اور یادگاروں کے نام تبدیل کردیئے گئے۔ ناموں کی تبدیلی سے تاریخی حقائق تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ کوئی ہندوتوا کے نادانوں کو یہ سمجھائے کہ نام بدلنے سے دل تو مطمئن ہوسکتا ہے لیکن تاریخی حقائق تاقیامت برقرار رہیں گے۔ مسلم حکمرانوں اور بالخصوص مغل حکمرانوں سے تعصب پر بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ملک کو ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ جیسا ترانہ دینے والے علامہ اقبال بھی برداشت نہیں ہیں۔ دہلی یونیورسٹی نے پولٹیکل سائینس کے نصاب سے علامہ اقبال کے سبق کو حذف کردیا۔ علامہ اقبال کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں کیا جاسکتا اور دنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو ہوگی اور اُردو بولنے والے رہیں گے وہاں وہاں علامہ اقبال دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ہندوستان سے حُب الوطنی کا ثبوت علامہ اقبال کی شاعری سے ملتا ہے۔’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کا ترانہ قومی تہواروں تک محدود نہیں بلکہ ہندوستانی فوج روزانہ اس ترانہ کی دُھن پر اپنے جذبہ حُب الوطنی کا اعادہ کرتی ہے۔ علامہ اقبال نے لارڈ رام پر بھی معرکۃ الارا نظم لکھی جس کی ہندو اسکالرس ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ نصابی کتب سے مسلم حکمرانوں اور اسلام کے بارے میں اسباق کو حذف کرتے ہوئے سنگھ پریوار نے تعلیم کو زعفرانے کی مہم چلائی اور ہر سطح پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ کم سے کم علامہ اقبال سے تو نفرت نہیں ہونی چاہیئے تھی جن کا ترانہ ہر ہندوستانی کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ بھلے ہی نصاب سے علامہ اقبال کو علحدہ کیا جائے لیکن ہندوستان کی تاریخ سے وہ ہمیشہ وابستہ اور زندہ رہیں گے۔ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی میں اندھے نفرت کے سوداگروں کو عقل کب آئے گی۔ کیفیؔ اعظمی نے کیا خوب کہا ہے۔
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد