انڈیا سکیولر جمہوریت‘ ہندو راشٹر نہیں

   

رام پنیانی
ملک کی آزادی اور پھر ہندوستانی دستور وجود میں آنے کے بعد ہندوستان سکیولر جمہوریہ ملک بن گیا۔ اسی کے ساتھ علحدہ شدہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی پاکستان دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان سکیولر مملکت ہوگا۔ جناح کے انتقال کے فوری بعد تقسیم ہند کی منطق حاوی ہوگئی اور پاکستان کو کچھ عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے دیا گیا۔ وہی پاکستان جس کی تشکیل اسلام کے نام پر ہوئی، بنگلہ دیش اور پاکستان میں منقسم ہوگیا جس کی بنیاد زبان اور جغرافیہ اور دیگر وجوہات رہیں۔ ہندوستان آگے بڑھتے ہوئے سکیولر اسٹیٹ بنا اور سکیولرازم کے اقدار کو سربلند رکھنے کوشاں رہا ہے۔
کئی رکاوٹوں کے باوجود سکیولر قدروں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اس کی کوشش ہوتی رہی یہاں تک کہ دو دہے قبل جب رام مندر کا مسئلہ اٹھایا گیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان دراصل ہندو راشٹر ہے۔ فرقہ واری قوم پرستوں کا یہی دعویٰ رہا ہے کہ سکیولر اقدار اور ہندوستانی دستور اِس ملک کے مزاج کی مطابقت میں نہیں ہیں اور اس لئے دستور کو تبدیل کرتے ہوئے ہندو راشٹر (قوم) کیلئے راہ ہموار کی جائے۔
ہندوستان کی ناہموار تقسیم، ایک طرف اسلام کے نام پر پاکستان کی تشکیل اور دوسری طرف سکیولر ہندوستان کا قیام اُس وقت کی قبول کردہ تاریخی حقیقت تھی۔ اب جبکہ ہندو قوم پرستی کی دعوے داری ہونے لگی ہے، ان میں سے کئی کو بہتر جانکاری ہونا چاہئے اور وہ تاریخی واقعات کو درست روشنی اور اس کی پیچیدگی میں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہ بات پھر ایک بار اُبھر آئی جب میگھالیہ کے جج جسٹس سین نے سندنامہ سکونت سے متعلق ایک عرضی پر فیصلے میں تبصرہ کیا کہ جیسا کہ ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا اور پاکستان مسلمانوں کیلئے تشکیل دیا گیا، اسی طرح ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دے دیا جانا چاہئے۔ جب تنقیدیں ہونے لگیں تب انھوں نے کہا کہ وہ سکیولرازم پر ایقان رکھتے ہیں اور یہ کہ ہندوستان کو مذہب یا ذات کی بنیاد پر مزید تقسیم نہیں کیا جانا چاہئے۔
اس طرح جج اور ان جیسے تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے ایسے بیانات کو ہم کس طرح دیکھیں؟ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ اور تقسیم ہند کو بارہا غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ تقسیم کے اسباب کے عام نظریات اس عمل کی حقیقی باتوں کو پیش نہیں کرتے ہیں، اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے زبردست سانحہ کو بھی نہیں، جو تقسیم ہند کے عمل کے بعد پیش آیا۔ برصغیر تقسیم ہند کے مابعد اثرات سے مختلف شکلوں میں بدستور پریشان ہورہا ہے۔
جہاں ہندوستان میں ایسا مانا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی علحدگی پسندی ہی تقسیم ہند کا موجب بنی، وہیں پاکستان میں ایسا سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان تو آٹھویں صدی میں سندھ میں حکمرانی کرنے والے محمد بن قاسم کے وقت سے ایک قوم رہے ہیں، اور پاکستان کی تشکیل ہندوؤں کے غلبہ پر قابو پانے کیلئے درکار تھی۔ یہ دونوں یکساں نوعیت کے خیالات ہیں، جو نہایت سطحی ہیں اور سماج کے فرقہ پرست طبقات کے نقاط نظر کو پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی اکثریت نے جامع ہندوستانی قوم پرستی کے حق میں رائے دی، جیسا کہ گاندھی جی زیرقیادت انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے نمائندگی کی۔ یہ اُن تمام کی رائے رہی جنھوں نے مخالف سامراج تحریک اور ہندوستان کی آزادی کیلئے تحریک کی قیادت کی۔ تحریک آزادی فروغ پاتی رہی اور اس نے نئے اُبھرتے سماجی طبقات صنعتکاروں، تاجرین، مزدوروں اور تعلیم یافتہ افراد کی امنگوں کی نمائندگی کی، جو جمہوری سماج کے خواہشمند تھے۔ ان کی گفتگو کا موضوع آئی این سی، گاندھی جی کے ارد گرد گھومتا رہا۔ تحریک آزادی کے دو پہلو تھے۔ ایک، برطانوی حکمرانی کی مخالفت کرنا اور دیگر جدید ہندوستان کی تعمیر جس کی بنیاد آزادی، مساوات اور بھائی چارہ پر ہو۔ اسی کے ساتھ جاگیردارانہ عناصر، زوال پذیر طبقات نے جدید ہندوستان بنانے کے عمل کی مخالفت شروع کردی اور مخالف سامراج تحریک کی بھی مخالف کرنے لگے۔ یہ زوال پذیر طبقات پیدائش پر مبنی عدم مساوات، ذات اور جنس کے درجہ بندی نظام میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ کچھ عرصہ میں مذہب کے نام پر علحدہ ہوگئے۔
’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کی برطانوی پالیسی نے مذہب کے نام پر جاگیردارانہ ذہنیت والے عناصر کی علحدگی میں بڑا رول ادا کیا۔ پہلے، مسلم امراء کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انھوں نے مسلم لیگ تشکیل دی اور بقیہ ہندو امراء نے خود کو پنجاب ہندو سبھا اور بعد میں ہندو مہاسبھا میں یکجا کرلیا۔ دلچسپ بات ہے کہ شروعات میں صرف راجا اور زمیندار ہی ان تنظیموں کا حصہ تھے۔ بعد میں اونچے طبقہ کے بعض لوگ، تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان تنظیموں میں شامل ہوئے۔ مسلم لیگ نے جلد ہی مسلم قوم کی بات شروع کردی۔ ہندو مہاسبھا نے دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس اِس ملک میں ہندو اور مسلم قوم ہے اور یہ کہ ہندو قوم اصل ہے۔ اس نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے آر ایس ایس ہندو قوم کے مقصد کے ساتھ سامنے آیا۔ ان تنظیموں نے شناختی سیاست کو اپنایا اور ’دیگر‘ مذہبی برادری کے خلاف نفرت پھیلانے لگے۔ اس پر تشدد کی بنیاد پڑی۔
دراصل برطانیہ والوں کا مقصد تھا کہ جنوبی ایشیا میں کوئی ہمنوا مملکت رہے، اور مسلمانوں کیلئے پاکستان کی تشکیل میں عجلت پسندی سے کام لیا اور بقیہ ہندوستان کو دونوں برادریوں کیلئے چھوڑ دیا۔ یہ عجیب حقیقت ہے کہ مسلم اکثریت کو دیکھتے ہوئے جس رقبے کی پاکستان کے طور پر نشاندہی کی گئی، اس کے باوجود ہندوستان کے حصے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک زاویہ سے دیکھیں تو جسٹس سین جیسے لوگوں کو نہایت ناہموار پالیسی میں الجھن ہونا کچھ عجب نہیں، جو مسلم اکثریتی علاقوں کے نام پر پاکستان کی تشکیل کا موجب بنی۔
ہندوستان کو سکیولر جمہوریت ہونا چاہئے ، محض تحریک آزادی کے قائدین کے وہمی خواب کا حصہ نہیں تھا؛ یہ ہندوستانی سوسائٹی کے وسیع تر گوشوں کی امنگوں کی گونج رہی۔ یہ اوسط ہندوستانیوں کا ویژن رہا جسے ہمارے قائدین، ہمارے بانیوں نے سنوارا اور حقیقت بنایا، اور یہی کچھ ہندوستانی دستور میں مدون کیا گیا ہے۔
گزشتہ تین دہوں نے ان اقدار کو پامال ہوتے دیکھا ہے، جن کا ہندوستانی سماج کے وسیع ترین گوشوں نے خواب دیکھا تھا۔ جیسا کہ مسلم لیگ ماقبل آزادیٔ ہندوستان کے آخری حصوں میں شناختی سیاست کی اپنی چالوں کے سبب زیادہ مسلمانوں کو متحرک کرسکی، آج ہندوستان میں شناختی سیاست کے اُبھراؤ کے سبب سماج کے بعض طبقات کو دھوکہ دیتے ہوئے ایسا یقین دلایا جارہا ہے کہ یہ ہندو قوم ہے۔ شناختی مسائل پر مبنی ایسے فریبوں کا تیزی سے صفایا کردینا چاہئے تاکہ ہمیں مساوی درجات، ہمارے مذہب ، ذات اور جنس سے قطع نظر ایک قوم کی تعمیر کے ہمارے مقاصد کی یاددہانی ہوجائے۔
ram.puniyani@gmail.com