انہدام کے بعد بھی زمین مندر کی ہے۔گیان واپی مسجد کیس میں ہندو فریق کے وکیل

,

   

وکیل نے کہاکہ متنازعہ زمین پر مندر ہندوستان کی آزادی سے بہت پہلے موجود تھا
پریاگ راج۔ گیان واپی مسجد معاملے میں مذکورہ ہندو فریق کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے جمعرات کے روز استدلال پیش کیاکہ انہدام کے بعد بھی مندر کی زمین مند ر کی ہونے کی نوعیت باقی رہتی ہے اور اس طرح کی صورت میں عبادت گاہو ں کاقانون اس پر لاگو نہیں ہوتا۔

واراناسی کی مسجد میں شرنگر گوری او ردیگر دیوتاؤں کی باقاعدہ پوجاکرنے کے مقدمے سے متعلق عرضی کے جواب میں یہ درخواست دائرکی گئی تھی۔ وکیل نے کہاکہ متنازعہ جگہ پر ہندوستان کی آزاد ی سے بہت پہلے مندر موجو دتھا۔

آلہ اباد ہائی کورٹ 13ڈسمبر کے روزانجمن انتظامیہ مسجد (اے ائے ایم)کی درخواست پر سنوائی کو برقراررکھے گی جس میں واراناسی کی عدالت کے اس حکم کوچیالنج کیاگیاہے جس میں پانچ ہندو خواتین کی طرف سے دائر مقدمے کی برقراری پر اعتراضات کومسترد کردیاگیاہے۔

مقررہ تاریخ کے مطابق جمعرات کے روز کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ تاہم مختصر سماعت کے بعد جسٹس جے جے میر نے اس معاملے کو مزید سماعت کے لئے 13ڈسمبر تک ملتوی کردیا۔سماعت کے دوران ہندو فریق نے یہ بھی دلیل دی کہ برطانوی دور میں دائر کیاگیا دین محمدکیس موجودہ کاروائی میں لاگو نہیں ہوگا کیونکہ مذکورہ کیس ہندوبرداری کے کسی فرد کو فریق نہیں بنایاگیاتھا۔

دین محمد کا مقدمہ متنازعہ جگہ پر تین مقبروں کو وقف جائیدادقراردینے کے متعلق دائر کیاگیاتھا۔

واراناسی کے ضلع جج نے ستمبر12کے روز سی آر پی سی کے رول11کے ارڈر سات کے تحت دائر کردہ درخواست کو مسترد کردیاتھا جس میں پانچ ہندو فریقین کے مقدمہ کے قابل سماعت قراردینے کو چیالنج کیاگیاتھا۔

اے ائی ایم کی درخواست کومسترد کرتے ہوئے مذکورہ جج نے مشاہدہ کیاتھا کہ مدعیان (پانچ ہندو خواتین)کے مقدمے کو عبادت گاہوں (خصوصی ایکٹ)1991اوریوپی شری کاشی وشواناتھ مندر ایکٹ 1983کے ذریعہ روکا نہیں گیاہے‘ جیسا کہ اے ائی ایم کی طرف سے دعوی کیاجارہا ہے