’انہوں نے ہمیں یہی تعلیم دی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ایسی سونچ کو شکست دینا ہوگا۔میں بس تمام کویہی باوار کروانا چاہتی ہوں‘

,

   

ان کے والد کے متعلق بی جے پی کی بھوپال سے امیدوار پرگیہ ٹھاکر کے تبصرے کے ایک روز بعد سمیتا نائیر سے جوئی ناوارا قتل کے معاملے میں آنے کے متعلق بات چیت کی‘ ا ب بھی وہ کنٹرول میں اس راست کرکرے کی بات چیت سن رہی ہے اور کیا ہوا اس بات کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہے‘ وہ خاموش کیوں رہے‘ اور کیوں ممبئی اس کے لئے ویسی نہیں ہے۔

کس طرح 26نومبر2008کے روز آپ کی والد کی موت کی اطلاع آپ تک کس طرح پہنچی؟
میں بوسٹن میں تھی۔ وہ نومبر کا آخری ہفتہ اور امریکہ میں تھینکس گیونگ کی چھوٹیاں تھیں۔

اس کے علاوہ ہم نے اپنے رشتہ داروں کو بلایاتھا اس کے لئے جشن چل رہاتھا۔ اپنی شادی کے بعد میں امریکہ میں رہنے لگی تھی۔

میں نے گھر سے باہر قدم ہی نکالاتھا کہ میری بہن کا مجھے فون کال آیا ہے کہ پاپا بلٹ پروف جیکٹ پہنے یولے ہیں اور وہ ٹیلی ویثرن پر دیکھائی دے رہے ہیں۔

میں فوری گھر کی طرف دوڑی۔ ٹیلی کھولا۔ اور پھر مجھے ایک کانفرنس کال آیاجس میں میرے شوہر‘ ماں‘ بہن او ربھائی بات کررہے تھے۔

پھر میں نے ٹیلی ویثرن پر ایک سرخی دیکھی ’ہیمنت کرکرے زخمی ہوگئے ہیں‘۔ میں سمجھے ٹھیک ہی کوئی معاملے زخم ہوگا۔

میرا مطلب یہ ہے کہ ہم کیسے سونچ سکتے ہیں کہ اتنا خراب ہوگا؟۔ ایک منٹ میں یہ سرخی تبدیل ہوگئی کہ”ہینمنت کرکرے کو لگی گولی‘پھر ’ہینمنت کرکرے کے سینے میں تین گولیاں ماری گئیں‘۔ میں حیرا ن ہوگئی۔

میں فون منتقطع کردیا۔ وہاں پر خاموشی چھاگئی۔ پھر میں میرے بہن کا مسیج آیا۔ تین مراٹھی الفاظ ”پاپا نہیں رہے“۔ اسی وقت میں نے اس سے پوچھا تم اتنا یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتی ہو؟ تو اس نے جواب میں کہاکہ مجھے تعزیتی پیغام آنا شروع ہوگئے ہیں۔

میں نے اپنا ان باکس کی جانچ شروع کی ای میل آنا شروع ہوگئے تھے۔ میں فوری طور پر ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔

مجھے ائیر پورٹ پر بتایاگیا کہ ممبئی کے ذریعہ ہندوستان جانے والے تمام ہوائی جہاز الرٹ کی وجہہ سے منسوخ کردی گئی ہیں۔ حالات اسی طرح کے بنے رہے۔

ہم نے دو دنوں تک انتظار کیا۔ مہارشٹرا حکومت کی جانب سے ہمیں فون کال موصول ہوا۔ ہمیں ہمارے ٹکٹس بھیجے گئے اور 28نومبر کے روز ہم نے جہاز پکڑا۔

جب ہم پہنچے تو ہم نے اپنی ماں کو دیکھا‘ مایوس بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ مگر جب انہوں نے ہمیں دیکھا‘ میرا بھائی او ربہن ان کے ارد گرد بیٹھے تھے‘ وہ مسکرائی۔

مجھے ایسا لگا کہ دوائی کی وجہہ سے وہ گہری غنودگی میں تھیں۔ اگلے روز آخر ی رسومات انجام دئے گئے۔

جب میں اپنے والدین کے کمرے میں گئی۔ تو میں نے دیکھا کہ آخری مرتبہ جو شرٹ میرے والد نے پہنا تھا وہ کھوٹی پر لٹکاہوا تھا اب بھی قلم میں اسی میں تھا۔

مجھے احساس ہونے لگاکے وہ ان تمام چیزوں کے لئے دوبارہ نہیں ائیں گے۔میں نے ان کی کچھ کتابیں نکالیں اور پڑھنا شروع کردیاتاکہ اپنے دماغ کو تبدیل کرسکوں۔

مذکورہ آخری رسومات اب بھی میرے ذہن میں تازہ تھے۔ وہ رسومات‘ وہ پھول اور بہت سارے لوگ جلوس ارتھی میں ساتھ چل رہے تھے۔ میں حیران تھی۔ مجھے اب بھی یقین نہیں ہورہاتھا۔

مجھے اب بھی وہ یاد آتا ہے جب میں نے گھر لانے کے بعد اپنے والد کی ٹھنڈی نعش کو چھویاتھا۔مجھے یقین نہیں ہورہاتھا کہ یہ ٹھنڈی جسم پر مشتمل نعش میرے والے کی ہے جو ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ وہ کسی بھی مجموعی کے روح رواں تھے‘ مگر ان کا مردہ جسم میرے سامنے تھا


پھر آپ کو وہ پیغام یاد ہے جو آپ کو ملاتھا؟

ہمارے خاندان کے ساتھ ہمدردی کی ایک بڑی لہر تھی۔ دنیا بھر سے ہمیں سینکڑوں تعزیتی خط ملے‘ وینا اور اسڑیا کے سفیروں نے بھی خط روانہ کئے۔ ہر وہ فرد جو ان کو جانتا تھا‘ حالانکہ یہ پہچان جزو ی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ خود کو ہیمنت کرکرے کے ساتھ رہنے اور انہیں جاننے پر فخر محسوس کرتے تھے۔

ذاتی طور پر بھی لوگ ہم سے ملاقات کے لئے آتے۔ شوہر کو کھونے کے غم کے باوجود میری ماں گھر آنے والوں کے لئے کچھ چائے تو ضرور پیش کرتیں۔مجھے دو پیغام اچھی طرح یاد ہیں۔

ایک وہ خط کو ان کی ابتدائی اسکول واردھا سے آیا تھا۔ وہاں سے انہوں نے چوتھی جماعت میں ٹاپ کرنے کے بعد میڈل اسکول منتقل ہوئے تھے۔

وہ واردھا پولیس افیسر کی حیثیت سے گئے تھے اور اپنی پرائمری اسکول ٹیچرس سے ملاقات کی بھی کوشش کی تھی۔ ٹیچرکو یہ بات کافی دل کو لگی تھی۔

میرے پاس اسکول کے ایک تصویر بھی تھی جو ایک پرانا اسکول تھا۔ وہاں پر میرے والد کے نام سے ایک لائبریری قائم کی گئی ہے جس کے افتتاح میری ماں کے ہاتھوں سے ہوا تھا۔

پھر مالیگاؤں کے لوگوں کی جانب سے ایک دل کو چھولینے والا خط اس میں شامل تھا۔

وہ نہایت خوبصورت انگریزی میں لکھاہوا تھا‘ جس پر مالیگاؤں کے کئی لوگوں کی دستخط تھی۔ اب بھی وہ خط میرے پاس ہے۔ وہ نہایت خوبصورت او ردل کو چھولینے والا خراج تھا

آپ کی ماں شاعری لکھتی تھیں۔ ان کی پچھلے کچھ سالوں کی کیایادگاریں ہیں؟

میری ماں کو شاعری تحریرکرنے کا بڑا شو ق تھا۔

میرے والد کی موت کے بعد اس صدمے سے باہر نکلنے کا ان کے پاس بس یہی ایک راستہ تھا۔ان کا نام جوتسنا تھا مگر پاپا نے شاعری سے ان کی محبت کو دیکھ کر شادی کے بعد انہیں ’کویتا‘ نام دیاتھا۔شاعری کی کتابیں دو خرید کر لاتے اور مطالعہ کرتے۔

وہ دونوں ایک ساتھ مراٹھی شاعر کوسوما گراج کی شاعری پڑھتے۔

زندگی میں اچھے چیزوں کی وہ ستائش کرتے۔ ان کی موت کے بعد میرے ماں گہرے صدمہ میں چلی گئیں اور نارمل ہونے کے لئے کافی وقت لگا۔

تقریبا2014کے قریب انہوں نے ان کے ہی کالج میں درس دینا شروع کردیا‘ سوئمنگ شروع کی‘ وہ پکوان بہت اچھا کرتی تھیں‘ وہ دوبارہ بحال ہورہی تھی جس کو دیکھ کر مجھے کافی خوشی محسو س ہوئی۔ میں اس وقت حیران ہوگئی جب انہیں برین ڈیڈ قراردیا گیا ہم سب سے حیران ہوگئے۔

وہ نہایت صحت مند فرد تھیں۔ میرے والد کی موت کے فوری بعد یہ ہوا۔ چھ سال کے عرصے میں ہم اپنے والدین کھودئے۔ میری ماں کی آنکھیں نہایت خوبصورت تھیں۔ ماں کی موت کے بعد ڈاکٹرس نے ہم سے کہا ان کے اعضاء کا عطیہ دے سکتے ہیں۔

ہم نے ایک دوسرے سے بات کئے بغیر ہی‘ ہماری رائے او رسونچ ایک تھی اور وہ یہ تھی کہ ماں کی آنکھیں نہایت خوبصورت ہیں۔

ان کی آنکھوں اور دیگر اعضاء سے استفادہ اٹھانے والے فرد سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔ ہمیں اب بھی ان کی موت کو سمجھنا مشکل ہورہا ہے۔

والدین کی موت کے بعد پھر کس طرح کے حالات کا آپ کو سامنا کرنا پڑا؟۔

ان دنوں‘ مجھے یقین نہیں ہوا یہ کہ جب کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے میرے والد بنا کسی منصوبہ سازی کے(26/11اپریشن کے لئے) چلے گئے تھے۔ان کے جیسے فرد کے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ میں ہمیشہ وینیتا کامٹے کی شکر گذار رہوں گی‘ جنپو ں نے کاونٹر حملے کے پیچھے کے سچ کی تلاش میں آر ٹی ائی کی پیش قدمی کی تھی۔

میرے پاس اب بھی ان کے اور کنٹرول روم کے درمیان میں ہوئی بات چیت کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ درحقیقت پاپا چاہتے تھے کہ کاما اسپتال (جہاں کرکرے کو گولی مار کر قتل کردیاگیاتھا) کو گھیرنے کے بعد زائد دستوں کا باز آبادکاری چاہتے تھے۔

کچھ وجوہات کی بنا ء پر یہ کام نہیں ہوا اور (لشکر طیبہ کا دہشت گرد اجمل) قصاب اور اسماعیل(خان) فرار ہوگئے۔

میں ہر وقت حیران رہتی ہوں کہ ان کے احکامات پر عمل کیوں نہیں کیاگیا۔ کیاوجہہ تھی؟ میں اب بھی وہ اڈیو ریکارڈنگ سنتی ہوں۔ میں میر ے والد کی آواز سنتی ہوں۔

جس میں وہ ہدایت دے رہے ہیں‘ فوج طلب کرنے کی درخواست کررہے ہیں۔انہیں فائرینگ اور گرنائیڈ بلاسٹ کے ساتھ سنا جاسکتا ہے۔ میں آخر تک اس کو چلاتی ہوں۔

نومبر26کے روز 11:28کو ان کے آخری تین الفاظ ’اے ٹی ایس اور کوارٹر ٹیمیں اسپتال کے پیچھے والی گیٹ پر ہیں اور لہذا وہاں کرائم برانچ کی ٹیم بھی ہے۔

چنانچہ سامنے کے حصہ سے ہمیں ایک او رٹیم چاہئے تاکہ اسپتال کی گھیرا بندی کی جاسکے‘۔

ان تمام باتوں سے میں اب تک بھی باہر نہیں نکل سکی ہوں۔میرے پا س ان کے اڈیو کلپ کے ٹرانسکرپٹ بھی ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کا مطالعہ کیاہے۔ ریکارڈس میں وہ نومبر26سا ل 2008کے روز11:24اور11:30کے درمیان تک زندہ تھے۔ اس کے بعد رابطہ ختم ہوگیا۔

ابتداء میں ہم نے فیصلہ کیا ہم اپنے غم کو اپنے اندر ہی رکھیں گے۔

ہم (تین بہن‘ بھائی) نے فیصلہ کیاکہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ اس سے بہت سارے تنازعات پیدا ہونگے۔ ہمارے والد عوامی شخص تھے مگر ہم نہیں ہیں۔

ہم عام شہری ہیں۔ میڈیاسے بات کرنے کے لئے ہمارے پاس کو تجربہ نہیں ہے۔ اس وقت میں 27کی میرے بہن 21اور میرا بھائی 17سال کا تھا۔ ہم اپنی ماں کو بھی تنازعات سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ ہم یہ جانتے تھے کہ کوئی بھی چیز ہمارے والد کو واپس نہیں لاسکتی۔

مگر میری ما ں چاہتی تھی کہ میڈیا سے بات کرے۔ وہ اے ٹی ایس چیف کی بیوی تھیں۔ لہذا بہت سارے لوگوں نے زندگی گنوائیں اور وہ چاہتی تھی کہ حکومت کچھ کرے۔

میں اپنی بیٹوں (جو کرکرے کی موت کے بعد پیدا ہوئی تھیں) کے ہمراہ ممبئی گئی۔ میں شہر میں چار ماہ کا وقت گذارے جب بڑی بیٹی چار ماہ کی تھی او رچھوٹی بیٹی تین ماہ کی تھی۔

میں انہیں تاج ہوٹل کی طرف گھومنے لے گئی۔ پھر ہم تاج کے پاس پسٹری کے لئے روکے۔ میں وہاں کی بیٹھک سے واقف تھی۔ یہ وہی مقام ہے جس کو دہشت گردوں سے چھوا تھا۔

میرے والدین کے بغیر شہر میرے لئے پہلے جیسا نہیں تھا۔ میری یادیں تاز ہ ہوگئیں۔ گھر میں لکڑی کے بنے کچھ ارٹ کرافٹ ہیں جو کو میرے والد نے ہاتھ سے بنایا۔

اس میں ایک فریم فوٹو گراف بھی جس میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھوں انہیں پولیس میڈل سے نوازے جانے کی تصوئیر بھی ہے‘ اور یہ تصوئیر بوسٹن کے میرے دیوان خانہ میں لگے ہوئی ہے۔ میں اپنی بیٹیوں کو اپنی ثقافت سے واقف رکھنا چاہتی ہوں

آپ کے لئے ’بمبئی‘ کے کیامعنی ہیں‘ جہاں پر شہرمیں آپ کے والد نے اپنی جان گنوائی ہے؟

جب ’بمبئی‘ شہر کو دیکھتی ہوں تو مجھے ہر طرف عمارتیں‘ ریتی کے ٹیلے اور اپنے بھائی بہن او ررشتہ داروں کے ساتھ چاؤ پاٹی پر گذرا وقت کی یاد آتی ہے۔

تاہم سمندر کے اسی حصہ نے دہشت گردی کے گہرے زخم اپنے پیچھے چھوڑے ہیں

کیاکبھی آپ کے والد نے مالیگاؤں کیس کے متعلق آپ سے بات کی ہے؟

ان دنوں ایک یادو منٹ ہی ان سے ہمارے بات ہوتی تھی۔ انہوں نے مکمل طور پر خود کو کیس سے منسو ب کرلیاتھا۔

میری ماں اس کیس اور اس کی پیچیدگیوں سے کافی پریشان رہتی تھیں۔ جب وہ ماؤسٹ علاقے چندرا پور میں سپریڈنٹ آف پولیس تھے‘ وہ اندرونی علاقوں کا دورہ کرتے اور قبائیلیوں سے ملاقات کرکے ان کا بھروسہ حاصل کرتے۔

میں ہمیشہ یہی سونچتی کہ ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔چھوٹی بچوں کی طرح وہ ہمارے لئے کسی سوپر ہیرو سے کم نہیں تھے او رہی مین سے بہتر تھے۔نومبر26سال2008کی اس رات تک ہماری سونچ ایسی ہی تھی۔

تاہم میری ماں ا ن کی زندگی کی فکر رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ مجھے دہشت گرد حملوں کے متعلق بولتی رہتی تھیں۔ وہ ایک بیوی کی چھٹی حس کا حصہ تھا۔

مالیگاؤں 2008بم دھماکوں کی ملزم پرگیہ ٹھاکر کے بیان کے متعلق آپ نے کچھ سنا ہے؟
میں نے سوشیل میڈیا پر دیکھا۔ میری دلچسپی میرے والد کا نام آنے سے ہوئی۔

میں اس بدگمانی کی طرف کبھی متوجہہ نہیں ہوتی اگر میرے والد کا نام اس میں گھسیٹا نہیں جاتا۔ کئی شعبوں سے اس پر آنے والا ردعمل کا میں نے مطالعہ کیا۔

مجھے ایسا ہوا ہے کہ ہینمنت کرکرے میرے والد ہیں بو ل کر نہیں بلکہ شہیدوں کا ہمیشہ احترام کیاجاتا ہے۔ اپنے کیریر میں وہ صاف سیدھا بولنے والے شخص رہے۔

چاہئے وہ منشیات کی لعنت کا خاتمہ ہو یا پھر ماؤسٹوں سے لڑائی وہ زمینی سطح تک جانے پر یقین رکھتے تھے۔

ماؤسٹوں کے ساتھ اپنے لڑائی میں وہ مانتے تھے کہ گولی ہی اس مسلئے کو قطعی حل نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیں سیکھا یاہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

دنیاکا کوئی بھی مذہب کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ اس سونچ کو ہمیں شکست دینے کی ضرورت ہے۔

ان کی زندگی اور ان کے چوبیس سالہ پولیس کیریر میں ہر کسی کی انہوں نے مدد کی ہے۔ اپنی موت میں بھی انہوں نے اپنے شہر او راپنے ملک کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

وہ اپنے یونیفارم سے بے انتہا محبت کرتے ہم سے زیادہ اور اپنی جان سے زیادہ ان کے پاس اس کی اہمیت تھی۔ میں ہر کسی کو یہ باور کرادینا چاہتی ہوں۔

میں اس(ٹھاکرے) کے بیان پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ اس کے بیان پر کچھ بات کروں۔

میں صرف ہینمنت کرکرے کے متعلق بات کرنا چاہتی ہوں۔ وہ ایک مثل راہ تھے او ران کا بڑے احترام کے ساتھ لیاجانا چاہئے