روش کمار
راہول گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کا عوام پر اچھا اثر ہورہا ہے، عوام ان کو سننے اُمڈ پڑ رہی ہے۔ یاترا کے دوران اپنے خطاب میں راہول گاندھی بار بار عوام کو یہ یاد دلارہے ہیں کہ مودی اور ان کی حکومت کو غریب اور پسماندہ بالخصوص دلتوں، اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی کوئی فکر نہیں، کسانوں کے مفادات بھی ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہ دولت مندوں کی فکر میں لگے ہوئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب ( پران پرتشٹھا میں ) میں اڈانی، امبانی، امیتابھ بچن، ایشوریہ رائے بچن اور دھونی کو دیکھا گیا لیکن کسی کسان کو نہیں دیکھا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں ( جہاں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں ) راہول گاندھی کا جگہ جگہ عوام نے شاندار خیرمقدم کیا۔ ان کی ریالیوں میں عوام کا حوصلہ افزاء ردعمل حاصل ہورہا ہے، وہ عوام کے سامنے مودی حکومت کی ناکامیوں کو مسلسل بے نقاب کررہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ گذشتہ دس برسوں سے مودی حکومت میں عام ہندوستانیوں کا نقصان ہی نقصان ہوا ہے جبکہ ان کے ہمنوا، اور دوست صنعت کاروں کا فائدہ ہوا ہے۔
پٹرول، ڈیزل، پکوان گیس، خوردنی تیل، اناج اور دالوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا غرض مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے، نوجوان بیروزگاری کا شکار ہیں، اقلیتیں اور دلت خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں‘ خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں اور ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ حکومت کے دعوؤں اور وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں جمہوری اداروں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ قانون سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، انسانی حقوق پامال کئے جارہے ہیں، ناراض آوازوں کودبایا جارہا ہے اور اپوزیشن قائدین کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ یو پی سے راہول گاندھی کو ایسا لگتا ہے کہ بہت زیادہ اُمید ہے۔ پرتاپ گڑھ میں راہول گاندھی نے جس طرح نوجوانوں سے کہا ، نوجوانوں کے ساتھ ساتھ 73 فیصد آبادی سے کہا جن کے حق کا وہ سوال اٹھارہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ یو پی سے راہول گاندھی کو خاص اُمید ہے۔ عوام کو جس طرح للکارا ہے ایسی للکار سے یو پی کی سیاست اب سن ہوچکی ہے۔ راہول نے پورے دَم سے نوجوانوں کو للکارا کہ اگر آپ کو اپنے مسائل میں یقین ہے اور تبدیلی چاہتے ہیں تو موبائیل فون اور دھرم کے اثر سے باہر آجایئے، تھوڑا دَم دکھایئے‘ ہمت و جرت کا مظاہرہ کیجئے جو آپ میں نہیں ہے۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں پرینکا گاندھی نے ایک نعرہ دیا تھا ’’ لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘‘ لڑکیوں نے پرینکا کے ساتھ ملکر لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا، انتخابات میں کانگریس کو ووٹ نہیں ملا۔ راہول گاندھی یو پی کے نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ تمہارے سامنے ہے تم خود اسے غلط مانتے ہو، اسے روک نہیں پارہے ہو، تم میں دَم نہیں۔
ملائم سنگھ یادو کی حکومت کے وقت ایک اشتہار منظرِ عام پر آیا تھا ، امیتابھ بچن اس میں کہا کرتے تھے کہ یو پی میں دَم ہے لیکن راہول گاندھی نے پرچوں کے افشاء سے لیکر اچھی تنخواہ کی نوکری نہ ملنے سے مایوس و پریشان نوجوانوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کے ذمہ دار آپ ہی ہیں، اسے بدلنے کا دَم آپ میں نہیں ہے، آپ نے اس کی مخالفت ٹھیک سے کی ہی نہیں، آپ لوگ سوگئے ہو، اس ملک کا 73 فیصد ببرشیر جو ملک کو چلاتا ہے وہ سوگیا ہے، اس میں دَم نہیں ہے۔ یو پی میں راہول گاندھی بہت جارحانہ نظر آئے۔ یو پی کی سیاست میں کانگریس کو زمین نہیں مل رہی ہے وہ تمام مسائل پر عوام کے ساتھ آتی ہے لیکن مراکز رائے دہی پر جنتا کانگریس کے ساتھ نہیں جاتی۔ اس بیچ یو پی میں راہول گاندھی کی یاترا اختتام کے قریب ہے۔ بہار میں جس طرح تیجسوی یادو ایک ہی جیپ میں سواری پر نکلے اور اتحاد کا ثبوت پیش کیا لیکن اُترپردیش میں ایسا نہیں دیکھا گیا ( یہ اور بات ہے کہ بعد میں کانگریس اور ایس پی کے درمیان نشستوں کی تقسیم کی معاملت طئے پاگئی جس کے تحت ریاست کی 80 پارلیمانی نشستوں میں سے 63 پر اکھلیش یادو کی ایس پی اور 17 پر کانگریس مقابلہ کرے گی۔ ایک بات ضرو رہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا میں عوام کا حوصلہ افزاء ردعمل دیکھا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس عوام کی ان ہمدردیوں کو ووٹ میں تبدیل کرپائے گی یا نہیں؟ اگرچہ یو پی میں نوجوانوں کا پورا اعتماد راہول گاندھی کو حاصل نہیں ہوا پھر بھی اس یاترا کے دوران بھی بہت سارے نوجوان اپنی پریشانیوں اور مسائل کو لیکر ان سے ملنے پہنچے۔ راہول نے ان کی باتیں سنیں، راہول سمجھ رہے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے اس لئے وہ نوجوانوں تک پہنچنے کیلئے لگاتار جارحانہ ہوتے جارہے ہیں مگر کیا ان کا یہ طریقہ یوپی کے نوجوانوں کو جھنجھوڑپائے گا۔
راہول کہتے ہیں کہ یو پی کا نوجوان شراب نہیں پیتا ہے تو آٹھ، آٹھ گھنٹے موبائیل فون پر لگا رہتا ہے، اے نوجوانوں! امبانی کا بیٹا ویڈیو نہیں دیکھتا، اڈانی کا بیٹا ویڈیو نہیں دیکھتا، اڈانی کا بیٹا دولت گنتا ہے، آپ لوگ صرف ویڈیو دیکھتا ہے۔ امیت شاہ کا بیٹا ہندوستان کے کرکٹ کو چلارہا ہے اس نے بھی زندگی میں کرکٹ کی ایک شارٹ نہیں ماری، اسے بیاٹ پکڑنا نہیں آتا اور وہ ملک میں کرکٹ چلارہا ہے یہ سچائی ہے تو میں نے کہا کہ دیکھیئے اتنا ہی قدم اُٹھایا جائے سب کی گنتی کی جانی چاہیئے۔ اس ملک میں غریب عام ذات کے کتنے لوگ ہیں؟ ان کے ہاتھوں میں کتنی دولت ہے؟ اِسی ملک میں پسماندہ لوگ کتنے ہیں؟ کون سی کون سی ذاتیں ہیں ان کے پاس کتنی دولت ہے۔ قبائیلیوں کی تعداد کتنی ہے؟ قبائیلیوں کے پاس کتنی دولت ہے، دلتوں کے پاس کتنی دولت ہے، مطلب ذات پات پر مردم شماری، اگر ایسا ہے تو راہول گاندھی کو صاف صاف بولنا چاہیئے کہ واٹس ایپ میں کا آتا ہے؟ کون بھیجتا ہے؟ کیسے دماغوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور کیسے وہ سچائی پر چھا جاتا ہے۔ اس طرح سے نہیں بولنے کی وجہ سے کئی لوگوں کو لگا کہ راہول گاندھی نوجوانوں کو مشورہ دے رہے ہیں سیاسی بات نہیں کررہے ہیں صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ موبائیل کا استعمال کم کرو۔ راہول نے موبائیل کلچر پر اچانک حملہ نہیں کیا ہوگا۔ انہیں پتہ ہوگا کہ اسی موبائیل فون کے ذریعہ 2014 کے بعد بھارت کی سیاست میں واٹس ایپ کلچر آیا جھوٹ نشہ بن کر گھر گھر میں پھیل گیا۔
11فروری …… کی ایک تقریر آپ کو سننا چاہیئے، یہ خطاب امیت شاہ کا ہے، مغربی بنگال میں آئی ٹی سیل کے بیچ امیت شاہ بول رہے تھے، امیت شاہ کا کہنا تھا کہ یوپی میں 35 لاکھ اور 18 لاکھ کے دو گروپ بنائے تھے اور وہ ہمارے یو پی میں جب پہلی بار 300 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی سب اچھنبے میں پڑگئے، ان کو معلوم نہ تھا اخبار چھاپے نہ چھاپے، ٹی وی دکھائے نہ دکھائے میرا سوشل میڈیا کا لڑنے والا کارکن ہر خبر عوام تک پہنچایا اور اس کی وجہ سے ہم جیتے۔ کارٹون، انیمیشن ویڈیو اور ڈرانے والی چیزیں یہ سبھی اکٹھا کرکے ہم نے کامیابی حاصل کی۔ اُترپردیش ہو یا کہیں بھی موبائیل فونس پر واٹس ایپ کا جال بچھانے اور ویڈیو مواد پھیلانے میں بی جے پی آگے نکل چکی ہے۔ جس طرح کے ویڈیو مواد بی جے پی قائد کے چل رہے ہوتے ہیں کانگریس کے کسی لیڈر کے دکھائی نہیں دیتے۔ انسٹا گرام پر جایئے بی جے پی کے کسی لیڈر یا بھکت کا ویڈیو تیرتا ملے گا۔ یوپی میں جو بھی لیڈر بننا چاہتا ہے یا بن چکا ہے مذہبی موسیقی لگاکر اپنا ویڈیو بنوارہا ہے۔ مذہبی سنگیت اُترپردیش میں سیاست کا بیاک راؤنڈ میوزک ہوگیا ہے اس کے بغیر کسی بھی ویڈیو میں کوئی بھی بی جے پی لیڈر چلتا پھرتا دکھائی نہیں دے گا، وہ سلوموشن میں بھجن کی دھن پر چلتا آتا ہے جیسے دیولوک سے کوئی دیوتا آرہے ہیں۔ راہول نے مودی حکومت اور خود مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں غریبوں، دلتوں، مزدوروں، کسانوں یہاں تک کہ ایک قبائیلی صدر دروپدی مرمو کو تک مدعو نہیں کیا گیا، وہاں تو صرف دولت مندوں، فلم اداکاروں اور صنعت کاروں کی بھیڑ جمع کرلی گئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اوبی سی نہیں ہیں بلکہ عام زمرہ کی ذات کے ہیں اس کے باوجود وہ عام ذات کے لوگوں کی بھی مدد نہیں کرتے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذات پات کی مردم شماری کی تائید کرتے ہوئے اس بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے راہول گاندھی سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کو روک پائیں گے، خاص کر اُترپردیش میں کانگریس کیلئے یہ موضوع نیا بنا ہے، ابھی اس موضوع کے سہارے بھروسہ بنانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس ذات پات کے بارے میں اس طرح کے سوالات کو لیکر کبھی اپنی تحریک نہیں چلائی۔ یو پی کی سیاسی تہذیب مابقی ریاستوں سے بہت الگ نہیں ہے مگر کچھ تو فرق ہے۔ ایک ایسے دور میں جب ہر طرح سے مذہب کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والا لیڈر مذہبی لبادہ اوڑھ چلا ہے اس کے برعکس راہول گاندھی پینٹ شرٹ میں نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ جو دکھایا جارہا ہے، دھر بھٹکایا جارہا ہے کم سے کم اسے تو سمجھو اور دیکھو۔ بحیثیت مجموعی راہول گاندھی اُترپردیش کے اپنے جلسوں اور ریالیوں میں ووٹ مانگنے والے لیڈر تو نہیں لگے بلکہ رائے دہندوں کو سدھارنے اور سمجھانے والے دانشور نظرآئے۔ راہول گاندھی نے عوام کو بتایا کہ ہندوستان میں مودی حکومت عوام کو بے وقوف بنارہی ہے ، اس کی توجہ اہم مسائل سے ہٹاکر غیر ضروری مسائل میں انہیں اُلجھا رہی ہے۔ انہوں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ سمجھایا کہ کس طرح اڈانی اور مودی عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ امیت شاہ ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس، پولیس یہ سب عوام کو ڈرانے کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ راہول گاندھی نے اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے عوام کو بتایا کہ وہ کاشی مندر گئے ، وہ شیو کو مانتے ہیں۔ وہاں پر پولیس والوں نے سارے موبائیل فون ہٹادیئے ایک موبائیل فون اندر آنے نہیں دیا کیوں ؟؟ کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ راہول گاندھی کی شیو مندر کے اندر تصویر دکھائی دے۔ اس کے بعد وارناسی میں سارا کا سارا سیل فون کا جو نیٹ ورک ہے اسے بند کردیا تاکہ لوگ راہول کی یاترا کا ویڈیو نہ پھیلائیں۔ آپ دیکھ لینا میرے اس خطاب کو بھی میڈیا میں نہیں دکھایا جائے گا، ایسے میں آپ کو چاہیئے کہ ہماری ہر مہم کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ پھیلاؤ، ہاں ایک اور بات سوشیل میڈیا کو بھی ان لوگوں نے امریکہ سے کنٹرول کررکھا ہے۔ راہول کا پرزور انداز میں یہ بھی کہنا تھا کہ 73 فیصد ہندوستان کی آبادی کو سونے کی چڑیا کا دھن ( دولت ) دلانا ہے۔ اگر ہم ہمارے ملک کی سطح پر دیکھتے ہیں تو امیر اور امیر ہوتا جارہا ہے، غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ یہ سب کو پتہ ہے لیکن کیا یہ سیاسی پہچان اور حصہ داری کا موضوع؍ مسئلہ بن سکتا ہے؟ انتخابی مسئلہ بن سکتا ہے۔ یوپی کے نوجوانوں کو ٹھیک سے پتہ ہے کہ ان کی اور ان کے گھر کی حالت کیا ہے۔ شائد راہول گاندھی ان کی بات صحیح طریقہ سے رکھ بھی رہے ہیں لیکن نوجوانوں نے ہی تہیہ کرلیا ہے کہ انہیں راہول کی صحیح بات پرنہجانا ہے تب کیا کیا جاسکتا ہے۔نوجوانوں کیلئے صحیح بات کچھ اور ہے۔ راہول نے سوچا ہوگا کہ درخت کو جھنجھوڑنے سے پتے گرجائیں گے۔