اُجالے کی کوکھ سے چاند نکلا

   

محمد عثمان شہید ،ایڈوکیٹ
سنتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ اندھیرے کی کوکھ سے چاند نکلتا ہے۔ یہاں اُجالے میں حیرت ہے چاند نکلا اور وہ بھی چودھوی کا چاند۔کچھ دن پہلے اخبار سیاست میں خبر چھپی تھی کہ آر ایس ایس کے سپریمو نے فرمایا کہ ماضی میں اگر ہم مغل شہنشاہوں میں سے کسی کو بھی ہیرو تسلیم کرلیتے تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔تم نے تو دل کی بات کہہ دی میری جان! لیکن کیا فائدہ جبکہ چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
تنگ نظر، متعصب اور فرقہ پرست لیڈروں نے ایسا گل کھلایا، ایسا زہر پھیلایا کہ ملک تقسیم ہوگیا۔ اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو ہم لوگ برطانیہ سے ٹکر لیتے، امریکہ کو آنکھیں دکھاتے، چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے، کیا کریں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی افلاس، بیروزگاری، بھوک، غریبی نے ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کمزور کردیا۔ ملک ہندوستان بڑی بدقسمتی کے دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کو ایک طرف سیاسی اختلافات نے تقسیم کیا تو سونے کی چڑیا کہلانے والے ملک کو اپنوں نے ہی نوچ لیا اور ملک منقسیم ہوگیا۔ سرحد تقسیم ہوگئی ، فوج تقسیم ہوگئی، جائیداد و ملکیت تقسیم ہوگئی، طلبہ تقسیم ہوئے، مدارس تقسیم ہوئے، فن تقسیم ہوا، ادب تقسیم ہوا۔ شاعر تقسیم ہوئے، سیاست اور پارلیمنٹ تقسیم ہوئے، صوبے تقسیم ہوئے اور تو اور رشتے تقسیم ہوگئے۔ بیٹا، مانباپ سے جدا ہوگیا۔ بھائی بہن ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ پیار تقسیم ہوگیا۔ میاں بیوی تقسیم ہوگئے اور روح بھی تقسیم ہوگئے اور ایسی لکھیر کھینچی گئی جو ناقابل عبور ہوگی۔
جرمنی کے دو ٹکڑے ہوئے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی، کلچر نہیں ٹوٹا، زبان نہیں ٹوٹی، لباس نہیں ٹوٹا، مذہب نہیں ٹوٹا، کچھ عرصہ بعد جرمنی متحد ہوگیا۔ ہندوستان بھی متحد ہوسکتا تھا لیکن جہاں زبان زہر آلود ہورہی ہے، اذہان دو ٹکڑے ہوگئے، تہذیب و تمدن دو ٹکڑے ہوگئیِ، تاریخ منقسم ہوگی۔ سیاسی مفادات بکھر گئے۔ بحر و بر ٹوٹ گئے۔ نظریات الگ الگ ہوگئے۔ ایک دوسرے کی تاریخ سوتن بن گئی۔ اب یہ دو ٹکڑے متحد نہیں ہوسکتے۔ نہ مفاد پرست ان ٹکڑوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ گنگا جمنا کی طرح یا ریل کی دو پٹریوں کی طرح جدا جدا ہیں۔ اصل میں ان دو ٹکڑوں کے بیچ نفرت کی دیوار اُٹھا دی گئی ہے اور اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ حد سکندری بن گئی ہے، نفرت کی سمنٹ بھید بھاؤ کی اینٹ، مذہب کے فرضی واقعات کی مٹی سے اتنا مضبوط کیا گیا ہے کہ اس کو ہلایا نہیں جاسکتا جبکہ
مذہب نہیں سکھاتا ، آپس میں بیر رکھتا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا
ہندوستانیو! ماضی کے جھروکوں سے تاریخ ہند کا مشاہدہ کرو، کسی کی بھی تاریخ پڑھ لو، ہندو ہو کہ مسلمان، کسی نے نہیں لکھا کہ مغلیہ دور میں ایک بھی غیرمسلم کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا یا مندر تباہ کی گئی یا مسجد شہید ہوئی۔ یا قرآن کو پھاڑا گیا (نغوذ باللہ)۔ ہندو اور مسلمان ایسا مل جل کر رہتے تھے جیسے ایک ماں کے دو بیٹے۔ رمضان میں مسلمان شیرخورمہ بھیجا تو غیرمسلم دیوالی پر مٹھائی، دُکھ سکھ، خوشی غم میں ایک دوسرے کے شرییک ہوتے۔ نہ کوئی بھید بھاؤ، نہ نفرت نہ فرقہ پرستی تھی، نہ مذہب کی بنیاد پر دشمنی۔ 1923ء میں آر ایس ایس کا مولکہ پھوٹا جس سے ایک ایسا درخت بنا جس سے نفرت کے پھل پیدا ہوئے، ہندو ۔ مسلم دشمنی کے پھول پیدا ہوئے، اس دور نے نفرت کا زہر پیدا کیا۔ فسادات کی آگ بھڑکائی، قتل و خون، غارت گری کو ہوا دی۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کو جلا کر راکھ کردیا۔ ہزاروں نوجوان نوکری اور تعلیم کے عنوان پر ملک سے باہر چلے گئے۔ تعلیم یافتہ طبقہ لاکھوں کی تعداد میں غیرممالک میں پناہ گزیںہوگیا۔ قابلیت اور صلاحیت کا سونا مٹی میں مل گیا، چند ایک کو چھوڑ کر اب صرف مزدور طبقہ یہاں رہے گا۔ اب اس ملک کو بچانا ہے تو ہندو۔ مسلم اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔
ہندو ۔ مسلم اتحاد ایسا تھا کہ ہمایوں کے دور میں گجرات کی رانی کروناوتی نے جب دیکھا کہ اس پر عبدالقادر روحیلے نے حملہ کردیا تو اس نے ہمایوں کو راکھی بھیج کر مدد مانگی۔ ہمایوں نے راکھی کا مطلب دریافت کیا۔ درباریوں نے کہا کہ رانی نے آپ کو اپنا بھائی بنالیا ہے اور مدد کی طلبگار ہے۔ شہنشاہ ہمایوں نے بے حد خوشی سے اپنی فوج روانہ کردی۔ ہمایوں نے کہا کہ ایسے وقت ایک بھائی کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہن کی مدد کرے۔ قادر خاں روحیلے نے دیکھا کہ مسلمانوں سے لڑ رہا ہے تو غیرت دلانے کیلئے کہا کہ ناممکن ہے کہ ہم مذہب ایک دوسرے کا گلا کانٹے۔ ہمایوں کی فوج نے جواب دیا یہاں مذہب کا کوئی سوال نہیں، یہاں ایک بھائی نے بہن کی مدد کی ہے اور ایسی تلوار چلائی کہ عبدالقادر روحیلہ ہار گیا۔
جیت کر بھی محمد بن قاسم نے کسی پجاری کو مفتوح علاقہ سے نہیں ہٹایا اور نہ مندر تباہ کی، نہ مذہب میں مداخلت کی۔ مشہور مورخ پروفیسر تارا چند نے لکھا کہ ایسا سکیولر بادشاہ ہندوستان میں کبھی نہیں آیا۔ تاریخ پڑھو ہندوستانیو! تاریخ پڑھو! تاریخ سے سیکھو کہ کیسا ہندو۔ مسلم پیار تھا، اتحاد تھا۔ دل الگ تھے، روح ایک تھی۔ اسی طرح حیدرآباد میں جب دو بھائیوں کا قتل ہوا تو بہادر یار جنگ کی روح لرز اُٹھی پھر جذبات پر قابو پالیا اور انہوں نے غصہ میں ہوئے مسلم سیلاب پر قابو پالیا۔ اس کی عینی گواہ سروجنی نائیڈو تھیں جو اس حادثے کے بعد ان کو اپنا بیٹا کہتی تھی۔ اکبراعظم نے راجہ ڈوڈرمل کو وزیر فینانس بنایا، راجہ مان سنگھ کو افواج کا کمانڈر اِن چیف بنایا۔ شیواجی نے مسلمان ابراہیم کو بحریہ کا چیف بنایا، نظام نے راجہ وینکٹ ریڈی کو کمشنر آف پولیس بنایا، عثمان علی خاں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو وزیراعظم بنایا۔ اس طرح مسلمان شیر و شکر کی طرح رہتے تھے۔ اب ملک کا خدا ہی حافظ ہے!!!