آداب کہنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہوتا

   

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ بعض لوگ ’’ السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں اور بعض’’ سلام علیکم‘‘ کیا دونوں طر یقے صحیح ہیں ؟ ان میں سے بہتر طریقہ کونسا ہے۔ بچوں عورتوںکے سلام کا بھی یہی طر یقہ ہے یا اس میں کوئی فرق ہے۔ ’’ آداب ‘‘ قدمبوسی‘‘ ’’ تسلیم‘‘ وغیرہ الفاظ جو استعمال کئے جاتے ہیں۔ کیا ان سے بھی سلام ادا ہوجاتا ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : السلام علیکم الف لام کے ساتھ کہنا بہتر ہے اور بغیر الف لام کے تنوین کے ساتھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سلام میں عورتیں بچے سب برابر ہیں۔ سب کو السلام علیکم کہنا چاہئے ۔ آداب ، بندگی قدمبوسی تسلیم کورنش وغیرہ کہنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہوتا۔ کنزالعباد ص ۳۴۹ میں ہے : فی الظھیریۃ و لفظۃ السلام فی المواضع کلھا ’’ السلام علیکم‘‘ أو ’’ سلام علیکم‘‘ بالتنوین و بدون ھذین اللفظین کما یقول الجھال لا یکفی سلاما۔ فقط واﷲتعالی أعلم
قاضی سید شاہ صوفی فرحان شاہ ولی اللھی
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۴؍ شوال المکرم ۱۱۱۴ھ؁ کو ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک جید عالم اور مشہور بزرگ تھے۔ فتاویٰ عالمگیری کی نظرثانی اور اصلاح میں آپؒ بھی شریک تھے۔ شاہ صاحب کا سلسلۂ نسب والد ماجد کی طرف سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے، اس لحاظ سے آپؒ خالص عربی النسل اور نسباً فاروقی ہیں۔پندرہ سال کی عمر میں آپؒ نے والد ماجد کے ہاتھ پر بیعت کی، انھوں نے آپؒ کو علوم باطنی کی طرف توجہ دلائی اور آپؒ ان کی زیر نگرانی اشغالِ صوفیہ میں مشغول ہوئے۔ اسی سال آپؒ نے بیضاوی شریف کا ایک حصہ پڑھ کر مروجہ نصاب تعلیم کی تکمیل کی۔ والد ماجد نے اس تقریب میں بڑے پیمانے پر خاص و عام کی دعوت کی اور دستار بندی کی رسم ادا ہوئی۔ بعد ازاں دو تین سال کے عرصہ میں آپؒ نے علومِ باطن میں بھی کمال پیدا کرلیا، پھر آپؒ کی عمر کے سترہویں سال والد ماجد سخت بیمار ہوئے اور پھر اسی حالتِ مرض میں آپؒ کو بیعت و ارشاد کی اجازت دے دی اور ۱۱۳۱ھ؁ میں اپنے بلند اقبال بیٹے کیلئے درس و ارشاد کی مسند خالی کردی۔قیامِ حرمین شریفین کے زمانے میں شاہ صاحب متعدد علماء و مشائخ سے کسب فیض کرتے رہے۔ پہلی مرتبہ آپؒ نے ہندوستان میں شیخ محمد افضل خاں المعروف بہ حاجی سیالکوٹی سے حدیث شریف پڑھی، پھر مدینہ منورہ میں شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم مدنی سے سند حاصل کی۔ شیخ ابوطاہر، شاہ صاحب کے بڑے معتقد تھے، اکثر فرماتے کہ ’’ولی اللہ الفاظ کی سند مجھ سے لیتے ہیں اور میں معنی کی سند اُن سے لیتا ہوں‘‘۔ شیخ ابوطاہر کے علاوہ شاہ صاحب نے شیخ وفد اللہ بن شیخ سلیمان مغربی کی درسگاہ میں بھی شرکت کی اور مؤطا امام مالک بہ روایت یحییٰ بن یحییٰ اول تا آخر سنی۔ اس کے بعد شیخ محمد سلیمان مغربی کی تمام مرویات کی اجازت لے لی۔ شیخ ابوطاہر مدنی نے تمام طرق صوفیہ کا جامع خرقہ بھی اسی بابرکت سفر میں شاہ صاحب کو عنایت فرمایا۔شاہ صاحب اسلام کے ان جلیل القدر علماء میں سے ہیں، جن کی شہرت و عظمت زمان و مکان کی حدود سے آگے بڑھ چکی ہے۔ آپ کا شمار عبقرین میں ہوتا ہے۔ آپ جیسی پایہ کی شخصیتیں اور یگانہ روزگار ہستیاں بہت کم وجود میں آتی ہیں۔یقیناً آپ کے علمی و ذہنی کمالات اسی تصرف و توصیف کے لائق ہیں۔جب آپ کی عمر شریف ۶۱سال سے کچھ زیادہ ہوئی تو مرض الموت نے آگھیرا اور چند روز خفیف سی علالت کے بعد آسمانِ علم کا یہ آفتاب ۲۹؍ محرم الحرام ۱۱۷۶ھ؁ بوقت ظہر افق دہلی پر ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا اور اپنے پیچھے بے شمار کواکب و نجوم کو چمکتا دمکتا چھوڑگیا، جو اس کی مستعار روشنی سے اب تک منور ہیں۔