آسام :این آر سی کی اشاعت میں خامیاں

   

لاکھ شیرازہ بندی کی ہوگی
آدمی ہے بکھر گیا ہوگا
آسام :این آر سی کی اشاعت میں خامیاں
ملک کی سرحدی ریاست آسام میں این آر سی کی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے ۔ جو قطعی فہرست منظر عام پر لائی گئی ہے اس کے مطابق جملہ 19 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے نام اس فہرست میں شامل نہیں کئے گئے ہیں اور ریاستی حکومت کی جانب سے عوام کو خوفزدہ نہ ہونے اور ہراساں نہ ہونے کی اپیل کرتے ہوئے تیقن دیا ہے کہ جو افراد اس فہرست میں اپنے ناموں کی عدم شمولیت کے خلاف ٹریبونل سے رجوع ہونا چاہتے ہیں اور وہ واقعی ہندوستانی ہیں ان کو ریاستی حکومت کی جانب سے مدد فراہم کی جائے گی ۔ حکومت کا یہ تیقن خوداس بات کا اعتراف ہے کہ این آر سی کی اشاعت میں کئی خامیاں ہوئی ہیںاور کئی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ۔ اسی وجہ سے حکومت کی جانب سے جو لوگ اس فہرست سے غائب ہوگئے ہیںانہیں مدد فراہم کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سارا ریاستی انتظامیہ کئی مہینوں سے این آر سی کی اشاعت میںسرگرم ہوگیا تھا ۔ کئی عہدیداروں کو اس کام پرلگایا گیا تھا ۔ وقفہ وقفہ سے حکومت کے ذمہ داران کی جانب سے بھی اس کام کی نگرانی کے دعوے کئے جار ہے تھے ۔ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کا یہ کہنا تھا کہ این آر سی کی خامیوں سے پاک اشاعت کو یقینی بنانے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ تاہم اب جبکہ این آر سی کی قطعی فہرست شائع کردی گئی ہے اس میں 19 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے نام شامل نہیں کئے گئے ہیں اور اب وہ خود کو غریب الوطن سمجھنے لگے ہیں۔ وہ کسی ملک کے شہری باقی نہیں رہ گئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ عہدیداروں سے غلطیاں اور خامیاں ہوئی ہیںاور ان کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جن میں اکثریت غریب عوام کی ہے ۔ یہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کیلئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں اور اب انہیں ٹریبونل اور پھر اگروہاں بھی ان کی توقعات پوری نہ ہوں تو ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے چکر لگانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے ایسے افراد کی مدد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن عوام کو مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑیگا اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیںہے ۔
جو معاملات اس فہرست کی تیاری میں سامنے آئے ہیں وہ حکومتوں کی توجہ کے قابل ہیں۔ اس فہرست کی تیاری میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور خامیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 40 سال تک ملک کی سرحدات کی حفاظت کرنے والے ایک اعلی فوجی عہدیدار کا نام اس میں شامل نہیں تھا ۔ انہیں ہائیکورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے لئے راحت حاصل کرنی پڑی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کی اپوزیشن جماعتیں اور بعض گوشوں کے دعوی کے مطابق خود برسر اقتدار بی جے پی کے کچھ گوشے اس فہرست سے مطمئن نہیںہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فہرست کی تیاری منظم انداز میں نہیں ہوئی ہے اور اس میں کئی جھول پائے گئے ہیں۔ کئی طرح کی خامیاں اس میں موجود ہیں۔ جو اپوزیشن جماعتیں ان کا کہنا ہے کہ جن افراد کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کا کوئی دستاویز موجود نہیںہے انہیں فہرست میںجگہ فراہم کردی گئی ہے اور جو لوگ کئی دستاویزات اپنے دعووں کے ثبوت میںپیش کررہے ہیں انہیںفہرست سے خارج کردیا گیا ہے اور این آر سی سیوا کیندر میں ان کی کوئی سماعت نہیںہو رہی ہے ۔ ان کی داد رسی کرنے والا وہاں کوئی نہیں ہے اور وہ تمام دستاویز رکھنے کے باوجود بھی بے یار و مدد گار ہوگئے ہیں۔ سرکاری عہدیداروں کا جو رویہ ہے وہ انتہائی ہٹ دھرمی والا ہے اور وہ اپنی غلطیوں کو قبول کرنے اور ان کو دورکرنے تیار نہیں ہیں۔اب بھی جبکہ این آر سی کی قطعی فہرست جاری کردی گئی ہے تو حکومت کیلئے اب بھی یہ موقع ہے کہ وہ جو خامیاںاس فہرست کی اشاعت میں رہ گئی ہیںانہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو واقعی اور حقیقی ہندوستانی شہری ہیں انہیںکسی طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنے نہ پڑے اور ان کی شہریت پر کوئی آنچ آنے نہ پائے ۔ اسکے علاوہ حکومت کو اس بات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جن عہدیداروں نے اس فہرست کی تیاری میں غلطیوںاور بدعنوانیوںکا ارتکاب کیا ہے اور ان کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے انہیں جوابدہ بنایا جائے ۔ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں حکام اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ برتیں اور نہ ان کی وجہ سے عوام کو کسی طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کی نوبت آئے ۔
کہاں تک جائیگا انحطاط
ملک میں معاشی انحطاط کی تشویش مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ ملک کے اہم ترین شعبوں میں معاشی گراوٹ اورجملہ گھریلو پیداوار میں مسلسل گراوٹ نے حالات کو دگرگوںکردیا ہے ۔ معاشی شعبہ انتہائی بحران کی سمت بڑھ رہا ہے ۔ اسکے نتیجہ میں ملک میں ملازمتوں میں تخفیف ہوتی جار ہی ہے ۔ نئے روزگار پیدا ہونا تو دور کی بات ہے موجودہ ملازمتوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے کل جو اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں ان کے مطابق مسلسل پانچویں سہ ماہی میں ملک کی جملہ گھریلو پیداوار میں گراوٹ آئی ہے ۔ اس پیداوار کو 8 فیصد سالانہ تک پہونچانے کا دعوی کرنے والی حکومت اس بات پر کوئی وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ یہ محض 5 فیصد تک کس طرح پہونچ گئی ہے ۔ مینوفیکچرنگ کا جو شعبہ ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوکر رہ گیا ہے ۔ اس شعبہ میں جو شرح ترقی درج ہوئی ہے وہ محض 0.6 فیصد تک محدود ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں کچھ معاشی راحت والے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدامات موجودہ بحران کو حل کرنے کیلئے کافی نہیںہیں۔ مارکٹوںاور بازاروں میں جو تیز رفتار اتھل پتھل ہے اس کے نتیجہ میںسرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا جا رہا ہے ۔ اب حکومت نے 10 بڑے بینکوں کو 4 بینکوں میں ضم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ یہ اقدامات حالانکہ مسلسل ہو رہے ہیں لیکن ان کے نتیجہ میں معیشت پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہورہے ہیں۔ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں جو گراوٹ آئی ہے وہ بحیثیت مجموعی ملک کی معاشی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس سے قیاس لگایا جاسکتا ہے کہ معاشی سست روی کے اثرات اب مرتب ہونے شروع ہوگئے ہیں اور اگر ان کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات نہ کئے جائیں اور جامع پالیسی اختیار نہ کی جائے تو یہ انحطاط طوالت اختیار کرسکتا ہے اور اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔