اپنے کردار کو موسم سے بچائے رکھنا

   

بقرعید … فرقہ پرستوں کے نشانہ پر
کورونا سے بے فکر حکومت کو رام مندر کی فکر

رشیدالدین
انسان لاکھ ترقی کرلیں اس کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں۔ روزمرہ کے معمولاتِ زندگی میں خوبیاں ہوں کہ خامیاں جو تاحیات ساتھ چلتی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ اگر کسی کے بارے میں منفی سوچ بن جائے اور کسی کی مخالفت کو وطیرہ بنالیں تو اس علت کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ سماج میں ہر دور میں ایسی طاقتیں اور عناصر موجود رہے جن کا کام سماج میں نفرت کا زہر گھولنا رہا ۔ سماج کو جوڑنے کے بجائے ہمیشہ توڑنے کی فکر کی گئی۔ کبھی مذہب تو کبھی علاقہ ، زبان ، رنگ و نسل کے عنوان پر عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتشار پسند طاقتوں کو ہمیشہ سیاسی سرپرستی حاصل رہی۔ ملک کی سالمیت اور باہمی رواداری اور اخوت کے دشمن آج نہیں بلکہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران بھی برٹش سامراج کے لئے مخبری کرتے ہوئے دیش بھکت مجاہدین آزادی کو نقصان پہنچاتے رہے۔ اسی ذہنیت نے گاندھی جی پر گولی چلائی اور اسی نظریہ کے پیروؤں نے انگریزوں کو سکھایا کہ کس طرح ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کا فارمولہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ جن کے پرکھوں نے انگریزوں کی غلامی کی ، آج ان کی نسل آباء و اجداد کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی سرپرستی نے ہر دور میں اس تباہ کن نظریہ کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ پروان چڑھانے کا کام کیا۔

جب کبھی اس نظریہ کے حاملین کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ بے قابو ہوکر سیکولرازم ، مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کی جڑوں کو کاٹتے ہوئے نفرت ، انتشار ، عداوت اور پھوٹ جیسے زہریلے مادہ کو سماج میں گھول کر تباہی کا سامان کیا۔ انہیں قوم کے دکھ درد اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں تفرقہ پسند طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوچکا ہے، لہذا گزشتہ 6 برسوں سے بے قابو ہوکر اقتدار کے نشہ میں وہ سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں ، جس کا خواب گزشتہ 70 برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں دستور ، قانون اور عدلیہ کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ وہ جو کریں ، وہی دستور اور قانون تصور کیا جاتا ہے ۔ گزشتہ 6 برسوں کے اقتدار میں مذہبی منافرت کے ایجنڈہ کے تحت کیا کیا گل کھلائے گئے، اس کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہر ذی شعور اور صاحب فہم و فراست شہری کی آنکھوں میں تباہی کے مناظر محفوظ ہیں۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی جلد تکمیل کے جنون میں نام نہاد دیش بھکتوں کو ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف جارحانہ بنادیا ہے ۔ مذہبی تشخص ختم کرتے ہوئے شریعت اور شعائر اسلام سے محروم کرنے کی سازش کی گئی ۔ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے پارلیمنٹ تو کبھی عدالت کا سہارا لیا گیا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ، ایسے عناصر کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام کس مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں۔ ملک میں کورونا کے قہر نے ہزاروں افراد کی جان لے لی اور لاکھوں افراد زندگی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ انسان سے انسان خوفزدہ ہے ۔ خونی رشتے ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن چکے ہیں۔ حکومت صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ حکومت کی بے حسی نے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔

کورونا کو لوگ موت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس افراتفری کے ماحول میں بھی جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو پنے ایجنڈہ کی فکر ہے۔ جس طرح لاک ڈاؤن کے دوران رمضان المبارک کی عبادات اور عید کی خوشیوں سے محروم کیا گیا۔ ملک بھر میں ان لاک کے باوجود عیدالاضحی کو متاثر کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ جب لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم ہوگئیں اور تمام تجارتی اور مذہبی سرگرمیوں کو بحال کردیا گیا تو بقرعید کی خوشیوں کو متاثر کرنے کا جواز کیا ہوسکتا ہے ۔ عید الفطر ہو یا عیدالاضحی یہ تو محض ایک بہانہ ہے۔ حقیقت میں مسلمانوں کی خوشیاں اصل نشانہ ہے۔ سنت ابراہیمی سے محروم کرنے کے لئے نت نئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے بعض دنیاوی مفادات کے اسیر مذہبی شخصیتوں کو استعمال کیا جارہا ہے جو جانور کی قربانی کے بجائے صدقہ و خیرات کی صلاح دے رہے ہیں۔ جہاں تک قربانی کا سوال ہے اگر جنگل بھر جانوروں اور کروڑہا روپئے کی رقم کا صدقہ بھی کردیا جائے تو یہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کریں وہ عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئیں۔ خیرات کو قربانی کا بدل بتانے والے دراصل اکبر کے دین الٰہی کے داعی ہیں۔ جب تک چرم قربانی سے آمدنی تھی تو دیواری پوسٹرس ، اشتہارات اور بیانات کے ذریعہ فضائل قربانی بیان کئے جاتے رہے۔ جاریہ سال حج کی اجازت نہیں ہے لیکن حج کے اخراجات کی رقم خیرات کرنے سے حج کا بدل نہیں ہوسکتا۔ یہی معاملہ قربانی کا بھی ہے۔ کسی بھی عالم کی شخصیت شریعت سے بلند نہیں ہوسکتی۔

بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بقرعید منانے سے روکنے کے لئے مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو نماز عید گھروں میں ادا کرنی ہوگی۔ جب نماز کی اجازت نہیں تو ظاہر ہے کہ قربانی کی اجازت کیسے رہے گی۔ اب تک بڑے جانور کی قربانی پر اعتراض تھا لیکن عید سے عین قبل عام قربانی پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے۔ کئی ریاستوں نے کورونا کے نام پر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تاکہ قربانی کے عمل کو متاثر کیا جائے ۔ حکومتوں کے غیر واضح موقف سے عوام تذبذب کا شکار ہیں۔ شریعت سے متعلق امور میں حکومتوں کی رکاوٹ افسوسناک ہے۔ جس ریاست میں مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات ہیں، وہاں اس قدر زیادہ پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ حکومتوں کو دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کا کوئی خیال نہیں۔ دستور ہند نے ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب پر نہ صرف عمل کرنے بلکہ اس کی ترویج کی اجازت دی ہے ۔ دستور کا خیال ایسے حکمرانوں کو آسکتا ہے جن کے پاس دستور کا احترام ہے۔ یہاں تو دستور اور قانون کو اپنی آستھا کے آگے جھکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ شرعی مسئلہ پر ایمانی حرارت کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ شرعی مسئلہ پر جذبات کا اظہار زندہ قوم کی علامت ہے۔ ملک میں ایک طرف کورونا سے لوگ بدحال ہیں تو مودی حکومت کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی فکر ہے۔ مندر کی تعمیر کا 5 اگست کو آغاز ہونے جارہا ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ بی جے پی کے اہم قائدین اور مختلف ریاستوں کے چیف منسٹرس کو مدعو کیا جارہا ہے ۔ بابری مسجد انہدام مقدمہ کی سماعت جاری ہے جس میں بی جے پی قائدین خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ وہ قائدین ہیں جنہوں نے مسجد کی شہادت کے لئے عوام کو اکسایا تھا لیکن آج تک عدالت سے انہیں سزا نہیں ملی۔ اب جبکہ ملک میں بی جے پی کا اقتدار ہے، عوام کو عدلیہ سے کچھ زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ مندر کی تعمیر سے زیادہ ضرورت عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی ہے تاکہ کورونا سے اموات کو روکا جاسکے۔ سرکاری دواخانوں کی ابتر صورتحال اور کارپوریٹ ہاسپٹلس کی لوٹ مار کے درمیان عام آدمی سینڈوچ بن چکا ہے۔ حکومت اپنی غفلت اور لاپرواہی کے ذریعہ عوام کی موت کا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔ عوام کی مصیبت میں فرقہ پرست ایجنڈہ کو فراموش کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایجنڈہ کی تکمیل کی عجلت کچھ اس طرح ہے کہ عوام کی زندگی سے زیادہ رام مندر کی تعمیر اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ مندر کی تعمیر کے ذمہ داروں کو ہندومت کی تعلیمات یاد کرنی چاہئے۔ ہندو مذہب میں انسان کی خدمت کو خدا کی خدمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسے میں نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کو مندر کے ایجنڈہ کے بجائے انسانیت کی خدمت اور جانوں کے تحفظ پر توجہ دینی چاہئے۔ پروین شاکر نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنے کردار کو موسم سے بچائے رکھنا
لوٹ کر پھول میں واپس نہیں آتی خوشبو