اپوزیشن کے لئے اہم موڑ

   

اپوزیشن کے لئے اہم موڑ
اہلِ خرد کارِ نمایاں کریں کوئی
میرا جنوں حقیر سہی ناتواں سہی
ہندوستان کی سیاست میں حکمراں پارٹی بی جے پی نے جو اتھل پتھل کی سیاست مچائی ہے اب اس کا خاتمہ ہونے جارہا ہے ۔ اپوزیشن کے رویہ سے تو یہ معلوم ہورہا ہے کہ اس نے حکمراں پارٹی کے غلط پالیسیوں کے خلاف کمر کس لی ہے ۔ کسان بل پر راجیہ سبھا میں احتجاج اور 8 ارکان کی معطلی کے بعد اپوزیشن پہلے سے زیادہ برہم اور متحد دکھائی دے رہی ہے ۔ اپوزیشن نے اپنے مطالبات کی یکسوئی تک راجیہ سبھا کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 8 ارکان کی معطلی واپس لینے پر بھی زور دیا ہے ۔ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے مودی حکومت کی اب تک کی غلط پالیسیوں کا جم کر مقابلہ کیا ہوتا تو شاید یہ حکومت اپنا رویہ بہتر بناتی ۔ مگر اپوزیشن اب تک سیاسی ناکامیوں کے صدمہ اور غم میں ہی مبتلا رہی ۔ اب اس کی اعلیٰ قیادت جیسے کانگریس کی قیادت سونیا گاندھی نے پارٹی میں کور گروپ تشکیل دے کر مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مضبوط محاذ بنانے کا فیصلہ کیا اور کسان اصلاحات بل کے حوالے سے شرومنی اکالی دل کی لیڈر اور مودی کابینہ میں وزیر ہرسمرت کور کے استعفیٰ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ سونیا گاندھی کے سیاسی منصوبے رنگ لا رہے ہیں ۔ انہوں نے جس کور گروپ کو تشکیل دیا اُس نے اپنے ہدف پر ضرب لگانا شروع کردیا ہے ۔ یہ ہندوستانی سیاست میں ایک اہم موڑ ہے ۔ گذشتہ 6 سال سے جمود کا شکار اپوزیشن نے اپنے وجود کا احساس دلانا شروع کیا ہے ۔ راجیہ سبھا میں زرعی بل کے خلاف احتجاج سے حکومت کی صفوں میں ہلچل مچ گئی ہے ۔ مرکز میں جب سے مودی حکومت آئی ہے ایک جمہوری ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کبھی بھی افہام و تفہیم کی ایسی فضا قائم نہیں کی گئی جس سے عوامی مسائل کی یکسوئی میں اپوزیشن کی رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت نے پالیسیاں مرتب کی ہوں اور ان پر عمل آوری سے قبل اپوزیشن سے اتفاق رائے پیدا کیا ہو ۔ مودی حکومت کی نظر میں اپوزیشن کی کوئی اہمیت نہ ہونا جمہوری سیاست کا ایک بڑا سانحہ تھا ۔ حکومت نے سرکاری ایجنسیوں ، الکٹرانک میڈیا کے بکاؤ اینکرس اور سوشیل میڈیا کے فرضی اکاونٹس کے ذریعہ اپوزیشن کو نشانہ بنانا شروع کیا ۔ نتیجہ میں اب تک اپوزیشن خود کو بچانے اور جمہوریت کو سینے سے لگا کر عوامی مسائل کی یکسوئی کی جدوجہد کرتی نظر آئی ۔ زرعی اصلاحات بل نے مودی حکومت کو سارے ملک میں آشکار کردیا ہے اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ حکومت صرف دولت مندوں کا ساتھ دے رہی ہے ۔ چند مٹھی بھر دولت مند لوگ سارے ملک کو اپنی مٹھی میں کرلینا چاہتے ہیں ۔ مودی حکومت اپنی چند متمول افراد کے ہاتھوں ملک کے ہر شعبہ کو فروخت کررہی ہے یا گروی رکھ رہی ہے ۔ زرعی اصلاحات بل بھی بڑے تاجروں کے پاس ملک کے کسانوں کو گروی رکھدینے کے مترادف ہے ۔ کسانوں کے پیدا کردہ اناج کو بڑے بیوپاریوں کے قبضہ میں دینے کی راہ ہموار کرنے والے زرعی اصلاحات بل کو نافذ کردیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھ ایک مضبوط موضوع آیا ہے ۔ اب وہ اس مسئلہ کو لے کر ملک کے کونے کونے میں پہونچے گی تو عوام کو مودی حکومت کی زیادتیوں اور من مانی سے واقف کروایا جائے گا ۔ عوام کو بھی اب حکمرانوں کی نااہلی پوری طرح معلوم ہوجائے گی ۔ عوام کو مودی حکومت کی غلط پالیسیوں سے نجات دلانے کا وقت آگیا ہے ۔ این ڈی اے میں پھوٹ ، شرومنی اکالی دل اور شیوسینا کے وزراء کا مودی حکومت سے استعفیٰ اس سمت میں اہم تبدیلی ہے ۔ اپوزیشن نے مودی حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کر کے اسے عوام کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے تو آنے والے دنوں میں اپوزیشن کو اس مسئلہ میں مزید متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ حکومت نے زرعی بل پر راجیہ سبھا میں ووٹنگ کا عمل نہ کروا کر اپنے لیے مسئلہ پیدا کردیا ہے کیوں کہ اسپیکر اگر رائے دہی کرانے سے انکار کردے تو حکومت کا وجود غیر قانونی ہوجاتا ہے وہ یہ بات خود بی جے پی کے ایک رکن ارون جیٹلی نے 2016 میں کہی تھی۔ اب زرعی بل پر راجیہ سبھا میں ووٹنگ نہ کر کے اسپیکر نے اپنے دستوری فرض کو فراموش کردیا ۔ نتیجہ میں مودی حکومت کا سارا زور اپوزیشن کے احتجاج کے سامنے ٹوٹ چکا ہے ۔۔