اہم سوالات ، محتاط جوابات

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

گزشتہ ہفتہ پیش آئے غیرمعمولی واقعات نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زبردست خلل پیدا کیا اور اس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں کو ملتوی کردیا گیا۔ ان تمام واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت ، اپوزیشن سے کہیں زیادہ پارلیمنٹ اجلاس کے قبل از وقت ختم کئے جانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایوانوں کی کارروائی ملتوی کئے جانے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ملک اور عوام کو درپیش چیلنجس اور مسائل پر حکومت بحث کرکے خود کو رسواء کرنا نہیں چاہتی۔ راجیہ سبھا اجلاس ملتوی کئے جانے سے قبل دوبارہ معمول سے ہٹ کر ایک سیول بحث کی گئی اور یہ بحث یا مباحث مالی سال 2022-23ء اور 3,25,756 کروڑ (اضافی رقم کا خرچ) کے مصارف کیلئے مجاز گردانے سے متعلق متناسب بل کے بارے میں تھی۔ اس قدر زیادہ رقم میں ملک کی شمالی اور مشرقی ریاستوں میں دفاعی اور سرحدوں کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل سڑکوں کی تعمیر کیلئے 500 کروڑ روپئے کا چھوٹا سا سرمایہ مصارف بھی شامل ہے۔ چین سے متصل سرحدوں کو لے کر مرکزی حکومت کئی ایک الزامات کا سامنا کررہی ہے اور فی الوقت وہ اس مسئلہ پر اپوزیشن کی شدید تنقیدوں کی زد میں ہے۔ میں نے مباحث کا آغاز کیا، میں نہیں چاہتا کہ یہ بھی ایک اور ایسے بے ثمر و بے نتیجہ مباحث ثابت ہوںجہاں اپوزیشن کی طرف سے سوالات کی بوچھار ہو لیکن حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں چنانچہ میں نے ماضی کے تجربہ کو بروئے کار لایا اور اُمید کی کہ اس مرتبہ یہ مباحث سابق کی بہ نسبت بالکل مختلف ہوں گے۔ یہ حقیقت میں مختلف ثابت ہوئے۔ بے شمار سوالات کئے گئے اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان سوالات کے جوابات بھی تھے، کچھ جوابات مبہم، بعض بہت ہی محتاط اور چند کے جوابات ہی نہیں تھے۔ سوالات اور جوابات کا بڑی باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا اور اس سے ایک بات یقینی ہوگئی کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر ڈاکٹر رگھورام راجن نے جو خدشات ظاہر کئے، وہ ابھر کر پھر سامنے آئیں گے۔ ڈاکٹر رگھورام راجن نے کہا تھا کہ سال 2022-23ء میں شرح نمو درمیانی سطح کی ہوگی اور پھر معیشت سال 2023-24ء میں سخت مشکلات کا سامنا کرے گی۔ اب ہم میرے سوالات اور ان سوالات پر معزز وزیر فینانس کے جوابات دیکھتے ہیں۔
(1) بجٹ دستاویزات میں چونکہ سال 2022-23ء میں قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو میں برائے نام یا معمولی نمو کی امید ظاہر کی گئی۔ ایسے میں افراط زر کی شرح کیا ہوگی؟ اور قومی مجموعی پیداوار کی حقیقی شرح کیا ہوگی ؟ (نظریاتی نہیں بلکہ عملی اصول یہ ہے ، افراط زر کی شرح + نمو کی حقیقی شرح = معمولی شرح نمو) مذکورہ سوال کا کوئی راست جواب نہیں دیا گیا۔ اس کی وضاحت نہیں کی گئی اور سچ تو یہ ہے کہ میرے دوسرے سوال پر وزیر فینانس نے اس بات کا اشارہ دیا کہ نامینل گروتھ ریٹ (NGR) زیادہ ہوسکتی ہے لیکن انہوں نے کتنا زیادہ ہوگی، اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں دیئے۔
(2) حکومت کس طرح 3,25,756 کروڑ روپئے کی اضافی رقم جمع کرے گی؟
(a) حکومت کے پاس پہلے ہی سے رقم ہے کیونکہ اس نے بجٹ میں لگائے گئے تخمینہ کی بہ نسبت بہت زیادہ آمدنی (رقم) وصول کی ہے۔
(b) حکومت زیادہ قرض حاصل کرے گی۔
(c) حکومت کو توقع ہے کہ نامینل گروتھ ریٹ 11.1% سے زیادہ ہوگی اور اسی لئے اگر وہ زیادہ قرض حاصل بھی کرے گی تو خرچ بھی زیادہ کرے گی اور وہ 6.4% مالی خسارہ کے ہدف کی تکمیل کرے گی۔
(d) اس میں سے کوئی نہیں۔
وزیر فینانس نے اپنے اس عہد کا اظہار کیا کہ 6.4% مالی خسارہ کے ہدف کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ اس وقت ٹیکس کلیکشن یا محاصل کی وصولی بجٹ تخمینوں سے زیادہ ہیں۔ اگر ہم اسے سیدھے سادے الفاظ میں بتائیں تو اس طرح بتاسکتے ہیں ، حکومت کو امید ہے کہ Buoyant Revenue (ٹیکس وغیرہ سے حاصل ہونے والی آمدنی) 3,25,756 کروڑ روپئے کی اضافی رقم پیدا کرے گی۔ حکومت کی وہ امید اور قومی مجموعی پیداوار کی زیادہ نامینل گروتھ ریٹ حکومت کو ایک اچھے موقف پر لاکھڑا کرے گی۔ یہ ایک محتاط جواب تھا جو ایسی صورت میں جب شرح نمو سال 2022-23 ء کے تیسرے اور چوتھے سہ ماہی میں سست روی کا شکار ہو، امکانات کا دروازہ کھلا رکھ سکتا ہے۔
(3) سال 2013-14ء میں کارپوریٹ ٹیکس روینیو 2022-23ء کارپوریٹ ٹیکس روینیو کے جی ٹی آر کا 34% رہا جیسا کہ بجٹ میں بتایا گیا جو ، اب GTR کا صرف 26% ہوگا۔ اس طرح 8% کا فائدہ (اندازاً 2,50,000 کروڑ روپئے) کے باوجود آخر نجی شعبہ سرمایہ مشغول کیوں نہیں کررہا ہے؟
اس سلسلے میں وزیر فینانس نے سرمایہ کاری کے اعداد و شمار کی فہرست گنوائی (جس میں زیادہ تر ایسی سرمایہ کاری ہے جس کے وعدے کے گئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ایل آئی اسکیم 14 شعبوں کیلئے شروع کی گئی لیکن نجی شعبوں کی سراہنا کی گئی، نہ ہی وزیر فینانس نے ان کی سرزنش کی جیسا کہ انہوں نے اپیکس چیمبرس سے خطاب میں کی تھی۔ یہ واضح ہے کہ وہ صرف ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کے موڈ میں ہے۔ ’’دونوں دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر قائم ہیں، ایسے میں یہ سرمایہ کاری کے محاذ پر عدم اطمینان کا سال ہوگا۔
(4) حکومت کے مصارف سے الگ نمو کے چار انجنوں میں سب سے کارکرد اور ممتاز انجن کونسے ہیں۔ وزیر فینانس نے نجی سرمایہ کاری پر بہت زیادہ محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے نجی کھپت کو نہیں چنا، ہاں انہوں نے درآمدات سے متعلق اُمید ظاہر کی ہے لیکن ہم جانتے ہیں، تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے، یہ دراصل Non-Answer (جواب نہیں کے زمرہ میں آتا ہے)
(5) حقیقی جی ڈی پی 1991-92ء اور 2003-04ء کے درمیان 12 سال میں دگنی ہوئی پھر یہ دوبارہ (2013-14ء میں) دس سال میں دگنی ہوئی۔ آیا آپ کی حکومت اپنی حکمرانی کے 10 سال کے ختم پر حقیقی جی ڈی پی کو دگنی کرے گی؟
اس سوال نے وزیر فینانس کو بالکل خاموش کردیا۔ وہ ہاں نہیں کہہ سکی اور ’نا‘ کہنے پر وہ بضد تھی۔ میرا جائزہ یہ ہے کہ حکومت 200 لاکھ کروڑ روپئے کے ہدف سے پیچھے رہ جائے گی۔ 500 کروڑ روپئے دفاعی سرمایہ مصارف سے متعلق وزیر فینانس سے کئے گئے سوال پر وہ کوئی جواب نہیں دے سکی۔ اس سوال میں چین کی دراندازی اور سرحد پر اس کے دفاعی تنصیبات کی تعمیر کے بارے میں پوچھا گیا تھا اور یہ بھی استفسار کیا گیا کہ آیا وزیراعظم نریندر مودی نے بالی میں یہ مسئلہ چینی صدر کے سامنے رکھا؟ وزیر فینانس نے ان سوالات پر کوئی جواب نہیں دیا اور وہ خاموشی کی سازش میں شامل ہوگئیں۔