ایران پر پابندیاں

   

ایران پر امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو ایک غیر ذمہ دار ملک قرار دیا ۔ صدر ایران حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی آڑ میں امریکہ کی کوششوں کی مذمت کی ۔ ایران کے خلاف صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا سخت ترین موقف مذاکرات کے تمام امکانات پر پانی پھیر سکتا ہے ۔ تنازعات کے درمیان اگر دنیا کی بڑی طاقتیں باہمی احترام اور باہمی بھروسہ کے حدود کو پھلانگ دیں تو پھر بات چیت کا احیاء آسان نہیں ہوگا ۔ ٹرمپ نظم و نسق نے گذشتہ دنوں ایک عاملہ احکام جاری کرتے ہوئے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو بحال کرنے اور ایران کے ساتھ اسلحہ تجارت اور ٹریننگ جیسی سرگرمیوں میں مصروف ملکوں کی مالیاتی امداد بھی روک دینے کا حکم دیا تھا ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر کئی ایک مالیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ خود ایران میں تیل کی پیداوار متاثر ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ ایران کی کرنسی کی قدر میں بھی کمی آچکی ہے ۔ اس کے باوجود ایران کی قیادت نے امریکہ کے دھونس جمانے کی حکمت عملی کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے درمیان نیوکلیر معاہدہ پر قائم رہنے والے ملکوں نے اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر پوری کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ ایران کا یہی کہنا ہے کہ نیوکلیر معاہدے پر قائم ملکوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ورنہ وہ ان معاہدوں سے چند قدم پیچھے ہٹ جائے گا ۔ ایران کے لیے سب سے زیادہ اہم اس کی معیشت ہے اور یہ معاشی بہتری تیل کی فروخت میں مضمر ہے ۔ امریکہ اگر اپنے اختیارات کو یکطرفہ طور پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے نیوکلیر معاہدہ کے دیگر 3 ملکوں کی رائے بھی معلوم کرنی ہوگی ۔ یہ تین ممالک زور دے چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے نیوکلیر معاہدہ پر قائم رہنا چاہتے ہیں ۔

ایران کے خلاف امریکی اقدام پر یہ بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ عالمی برادری نے اس سلسلہ میں اب تک اپنا موقف واضح کیوں نہیں کیا ۔ ایران کی نظر میں امریکہ کے غیر قانونی اقدام پر عالمی برادری کو فوری آگے آنے کی ضرورت تھی ۔ عالمی برادری کو موجودہ حالات کے تناظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔ اقوام متحدہ سکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل کو صدر امریکہ کے رویہ کا نوٹ لینے کی ضرورت ظاہر کی جاچکی ہے تو اس سلسلہ میں سکریٹری جنرل کو فوری توجہ دینی ہوگی ۔ ایران کو مسلسل نشانہ بنانے اور اس پر عالمی سطح پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام لگا کر نیا تنازعہ پیدا کررہا ہے ۔ اقوام متحدہ کی اعلیٰ اتھاریٹی سے ایران کی شکایت کا نوٹ لیا جانا چاہئے کیوں کہ امریکی نیو کلیر تحدیدات سے ایرانی معیشت تباہ ہورہی ہے ۔ اور اس کے ساتھ لاکھوں زندگیاں ضائع ہورہی ہیں ۔ امریکی پابندیوں کو ایران اور امریکہ کے درمیان سال 1955 میں ہوئے عام معافی معاہدہ کی بھی سنگین خلاف ورزی سمجھا جارہا ہے ۔ ایران پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے بین الاقوامی قوانین کی بنیادوں کو ملحوظ نہیں رکھا جانا بھی ایک تشویش کی بات ہے ۔ یہ تحدیدات نہ صرف ایران کی تجارت کو نقصان پہونچا رہے ہیں بلکہ ایران میں عوام کی روزمرہ زندگی میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث ہورہے ہیں ۔ اس سے ایران عوام کی بڑی تعداد کے نظام صحت پر بھی اثر پڑرہا ہے ۔ بادی النظر میں امریکی اقدامات کو ایک طرح کا دباؤ بنائے رکھنے کا حربہ قرار دیا جارہا ہے ۔ بہر حال امریکہ کے دباؤ میں آکر اقوام متحدہ کی پابندیاں نافذ کرنے سے خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان تنازعہ پیدا ہورہا ہے جس سے عالمی اتحادکی کوششوں کو دھکہ پہونچے گا ۔ اس لیے اقوام متحدہ کو یہ غور کرنا ضروری ہے کہ ایران کے تعلق سے اس کا اقدام اور کونسا پہلو درست ہوگا کسی بھی ملک پر طاقت مسلط کر کے مستقل طور پر جمود کا خطرہ پیدا نہیں کیا جاسکتا ۔ ان پابندیوں سے سلامتی کونسل کی ساکھ کو ہی شدید خطرہ لاحق ہوگا ۔۔