’’ایشور اللہ تیرو نام‘‘ کا احیاء ضروری

   

رام پنیانی
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی قیادت میں شروع کی گئی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کو عوام کا حوصلہ افزاء ردعمل حاصل ہورہا ہے اور جابجا عوام یاترا کا خیرمقدم کررہے ہیں، اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ یاترا کے بارے میں عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ شاید لوگوں کو اس غیرمعمولی یاترا کا انتظار تھا تاکہ ہندوستان کی مشترکہ قوم پرستی میں اپنے ایقان و اعتماد کو دوبارہ مضبوط و مستحکم بنایاجائے۔ویسے بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ گزشتہ چند دہوں سے عموماً اور پچھلے چند برسوں سے خصوصاً یہ ہندوستانی قوم پرستی کمزور پڑگئی۔ ایک طرف سے اسے خطرہ لاحق ہوگیا جبکہ قومی میڈیا اور ملک کے بڑے ٹی وی چیانلس اسے (موجودہ حالات) کو مسلسل نظرانداز کررہے ہیں لیکن سوشیل میڈیا جزوی طور پر خوبصورت و متاثرین ویڈیو کلپس اور تصاویر عام ہندوستانیوں تک پہنچاکر اس کی پابجائی کررہا ہے۔ آپ تمام محسوس کرسکتے ہیں کہ جس طرح ہمارے قومی سطح کے ٹی وی چیانلس حقیقی ہندوستانی قوم پرستی، جمہوریت و سکیولرازم کو پہنچنے والے نقصانات پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اسی طرح راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے تعلق سے بھی یہی رویہ قومی میڈیا نے اختیار کیا ہے۔ اسے نظرانداز کرنے کی ممکنہ کوششیں کی جارہی ہیں، اس کے باوجود ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سے متعلق پل پل کی خبریں تصاویر اور ویڈیو کلپس سوشیل میڈیا کے ذریعہ برق رفتاری سے عام ہندوستانی شہریوں تک پہنچ رہی ہیں۔ عوام کا جو شاندار ردعمل حاصل ہورہا ہے، وہ اس لئے ہے کہ پچھلے چند برسوں سے ’’ہندوستان کے آئیڈیا‘‘ (نظریہ ہندوستان) کو کمزور کیا گیا۔ یہ وہ نظریہ ہے جسے ہمارے مجاہدین آزادی نے دیا تھا۔ ہندوستان کے ان قابل سپوتوں نے بے شمار قربانیاں دیتے ہوئے اپنے ملک کی آزادی کو یقینی بنایا لیکن آزادی ملنے کے سات دہوں میں ہی ہندوستانی دستور کے اقدار کو فراموش کرنے ، اسے جان بوجھ کر پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ دستور نے امیر و غریب کے درمیان معاشی خلیج کو پاٹنے کا کام ریاست کے تفویض کیا۔ ساتھ ہی سائنسی مزاج کے فروغ میں ریاست کا کردار بھی واضح کردیا اور بتایا کہ اس معاملے میں ریاست کا کردار کیا ہونا چاہئے۔ یہ وہ کردار ہے جسے پچھلے کچھ برسوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الوداع کہہ دیا گیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان ایک سکیولر ملک بنا۔ ایسا ملک جس میں ذات پات اور صنف کی مساوات پر خصوصی زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دستور اور قانون کے سامنے تمام ہندوستانی چاہے وہ کسی مذہب، کسی ذات اور کسی صنف سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں، سب برابر اور مساوی ہیں۔ ہمارے دستور نے سب کو مساویانہ حقوق عطا کئے ہیں۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں جہاں مختلف سلطنتوں کے بادشاہوں یا راجاؤں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور ان کی حکومتوں کو الہامی اتھارٹی پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ میں ایسا موڑ آیا کہ بادشاہوں اور ان کی حکمرانی کی جگہ انگریزوں کے تسلط نے لے لی اور ہندوستان کو تاج برطانیہ کی نوآبادی میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بعد ایسا دور بھی آیا جہاں دوسری تبدیلیاں بھی سماجی تبدیلیوں کا باعث بنی۔ ذرائع حمل و نقل (ٹرانسپورٹیشن)، کمیونیکیشن (مواصلات)، عصری تعلیم اور عصری انتظامیہ نے ایسا میدان فراہم کیا جس کے ذریعہ ذات پات اور صنفی مساوات کی راہ ہموار ہوئی۔ ساتھ ہی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو فروغ حاصل ہوا جو لوگ زمیندارانہ و جاگیردارانہ ذہنیت کے مشعل بردار تھے، قوم کی تعمیری عمل سے خود کو دور رکھا اور ایسے ہی لوگوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ سے متعلق انگریزوں کی پالیسی کی بھرپور مدد کی جس کا نتیجہ ملک کی المناک تقسیم کی شکل میں منظر عام پر آیا۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی المناک و دردناک بلکہ برصغیر کی سب سے بڑی نقل مکانی کا باعث بنی۔ مخالف نوآبادیات و مخالف انگریز جدوجہد کے ذریعہ تعمیر قوم کی راہ پر گامزن ہوا اور پھر مابعد آزادی صنعتیانے کا عمل شروع کیا گیا۔ ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا گیا۔ تعلیمی شعبہ کو غیرمعمولی طور پر فروغ دیا گیا۔ آبپاشی دیگر سہولتوں اور سماجی بہبود کے شعبوں میں کافی ترقی ہوئی۔ نسلی قوم پرستوں ہندو اور مسلم فرقہ پرستوں نے زیادہ تر شناخت کے مسائل پیدا کئے اور پھر ہندو فرقہ پرستوں نے مختلف شعبہ حیات اور ریاست کے مختلف اداروں میں اپنی بالادستی و اجارہ داری قائم کرنا شروع کردیا اور سرکاری اداروں میں ان کی دراندازی نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کردی ہے۔ اس کا مقصد ملک کے ہر شعبہ میں بالادستی قائم کرنا تھا اور پھر اپنے حامی صنعتی گھرانوں کے ذریعہ میڈیا پر بھی پوری طرح کنٹرول حاصل کرلیا۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے سوشیل میڈیا سیل بھی قائم کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کا سامان کرلیا۔ غرض فرقہ پرستوں کی ان حرکتوں و سرگرمیوں سے تحریک آزادی میں حاصل کردہ کامیابیوں کا عمل کمزور پڑگیا۔ سب سے زیادہ جن اہم چیزوں کو نقصان پہنچا، ان میں ہند۔ مسلم اتحاد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ وہی ہندو ۔ مسلم اتحاد تھا جس کے نتیجہ میں ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی حالانکہ آج جس طرح ہمارے ملک میں عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جارہا ہے، اسی طرح انگریزوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی تھی۔ بہرحال پچھلے چند برسوں میں ہندو۔ مسلم اتحاد کو جہاں نقصان پہنچا، وہیں سماجی انصاف کی طرف پیش قدمی بھی سست روی کا شکار ہوگئی۔ معاشرے کو فرقہ پرستی کی آلودگی سے متاثر کرنے کے نتیجہ میں صنفی مساوات کی سمت پیش قدمی بھی رُک گئی۔ دوسری طرف سیاسی سطح پر ایک ایسی پارٹی میں جس نے تحریک آزادی کی قیادت کی موقع پرست و فرقہ پرست عناصر نے دراندازی شروع کی، اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے اقتدار حاصل کرنا تھا۔ اس دوران سابق راجہ رجواڑوں کی اولاد بھی مقامی ایجنڈے کے ساتھ علاقائی سیاسی طاقت بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے سیاسی میدان میں کود پڑی۔ ایسے میں بائیں بازو کی جماعتیں جنہیں کمزور اور حاشیہ پر لائے گئے طبقات کے حقوق برقرار رکھنے چاہئے تھے، خود کمزور ہونا اور حاشیے پر آنا شروع ہوگئے۔ آج ہم جس ہندوستان کو دیکھ رہے ہیں، اس کی صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ بی جے پی کی تقسیم کرنے والی تخریبی سیاست نے نہ صرف کمزور طبقات کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی بلکہ اس کی سرپرست تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ نے اپنی مختلف ذیلی تنظیموں کے ذریعہ دلتوں اور آدی واسیوں (قبائیلیوں) میں متواتر کام کیا تاکہ انہیں ہندو قوم پرستی کے دائرہ میں شامل کیا جائے۔ اس نے زمینی سطح سے سوشیل انجینئرنگ بھی کی جس سے میکرو شناخت مستحکم ہوئی، ساتھ ہی رام مندر، لو جہاد، ذبیحہ گاؤ اور مسلمانوں سے خوف کے ذریعہ ایک بڑی ہندو شناخت کو منظر عام پر لایا گیا۔ غرض آر ایس ایس اور بی جے پی نے اپنے خفیہ ایجنڈہ کو پوری طرح منظر عام پر لا تو دیا لیکن ایسا ظاہر کرنے میں مصروف ہوگئے کہ اس ایجنڈہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہندو تنظیموں اور مذہبی قائدین کا یہ مطالبہ ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ایک یا دو دہوں کے دوران ملک میں فرقہ پرستی، مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے کے سواء کچھ نہیں ہوا لیکن ان دہوں میں بھارت جوڑو یاترا کا نکالا جانا، شاید سب سے اچھا کام ہوا ہے۔ اس یاترا سے یقیناً ملک و قوم مضبوط ہوں گے اور ساتھ ہی کانگریس اس میں درانداز کرچکے فرقہ پرستوں سے پاک بھی ہوگی۔ یہ ایک ایسا موقع بھی ہے جس سے اُن سماجی گروہوں میں ہلچل بھی پیدا ہوگی جو کمزور اور حاشیے پر لائے گئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کیلئے پابند ہیں۔ یہ وہ گروپس ہیں جو جمہوری اقدار اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار ہیں، اس یاترا نے انہیں (سماجی گروہوں) کو انسانی جمہوری معاشرہ کے مقاصد کیلئے کام کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ ان کا اصل مقصد معاشرہ کے تمام طبقات کو وقار و احترام اور حقوق عطاکرنا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان سماجی گروپوں نے راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کی جانب سے کافی حوصلہ افزاء ردعمل حاصل ہوا ہے۔کئی سیاسی جماعتوں نے بھی بھارت جوڑو یاترا کا خیرمقدم کیا تاکہ ہماری مشترکہ تہذیبی اقدار تنوع اور جمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہاں! ایک بات نوٹ کی گئی کہ اس یاترا کے گذرنے کے جن راستوں کا تعین کیا گیا ہے، اس میں مسلم اکثریتی علاقوں کو بہت کم نمائندگی دی گئی ہے ۔ آج ہمیں مسلمانوں اور عیسائیوں سے جڑنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ مسلمان اور عیسائی نسلی سیاست کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ایک اور بات آپ کو بتانا چاہوں گا کہ بھارت جوڑو یاترا میں جب راہول گاندھی ایک چھوٹی سی مسلم لڑکی (جس نے اپنے سر پر اسکارف باندھ رکھا تھا) کے ساتھ مارچ میں آگے بڑھے تب فرقہ پرستوں نے جان بوجھ کر اس کا مضحکہ اُڑایا۔ ایسے میں بھارت جوڑو یاترا کو مذہبی اقلیتوں سے جوڑنے کی بھی ضرورت ہے جس طرح بابائے قوم نے جوڑا تھا۔ آج ملک کو شناختی سیاست سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ بہرحال یہ یاترا ’’ایشور اللہ تیرو نام‘‘ کے عمل کا احیاء ہونا چاہئے۔