این ڈی اے کے نئے پارٹنر

   

مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کو حال ہی میں شرومنی اکالی دل نے کسانوں کے زرعی بلوں کے مسئلہ پر احتجاج کرتے ہوئے خیرباد کہہ دیا تھا ۔ اس سے ایک سال قبل بی جے پی کی دیرینہ حلیف پارٹی شیوسینا نے بھی نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود سیاسی مفادات کی خاطر این ڈی اے سے علحدگی اختیار کرلی تھی ۔ مرکز میں حکومت چلانے کے لیے بی جے پی کو کسی حلیف پارٹی کی ضرورت نہیں ہے تاہم این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کو ساتھ رکھ کر مودی حکومت نے اپنے زعفرانی منصوبوں کو بے دھڑک روبہ عمل لانا شروع کیا ۔ این ڈی اے کی مخالف جمہوریت ، مخالف سیکولر اور مخالف دستور اقدار پالیسیوں کے باوجود کئی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مودی حکومت سے چمٹ کر رہنے کو ترجیح دی ۔ زرعی بلوں کے مسئلہ پر جب شرومنی اکالی دل کو پنجاب کے کسانوں کی ناراضگی کا احساس ہوا تو اس نے این ڈی اے چھوڑ دیا اس سے مودی حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا مگر این ڈی اے کے لیے ایک دھکہ ضرور تھا ۔ اب این ڈی اے میں نئے پارٹنر شامل ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آندھرا پردیش کی حکمراں پارٹی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے سربراہ اور چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کر کے یہ اشارہ تو دیا ہے کہ اب وہ این ڈی اے کا حصہ ہوں گے ۔

بی جے پی چونکہ اپنی 6 سالہ حکمرانی کے دوران حلیف پارٹیوں کے اچانک فیصلوں کا شکار نہیں ہوئی تھی لیکن گذشتہ ایک سال سے اسے حلیفوں نے صدمہ دینا شروع کیا ہے ۔ شرومنی اکالی دل کے جھٹکے سے ابھی وہ باہر نہیں نکلی ہے ایسے میں آندھرا پردیش کے سیکولر رائے دہندوں کے ووٹوں سے سیاسی طاقت حاصل کرنے والی وائی ایس کانگریس پارٹی این ڈی اے کے پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہے تو یہ آندھرا پردیش کے سیکولر ووٹرس کے لیے صدمہ انگیز بات ہے ۔ ایک ایسے وقت جب این ڈی اے کی اصل پارٹی بی جے پی کے تعلق سے ملک بھر میں منفی رجحان پیدا ہورہا ہے اور این ڈی اے سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنا الگ سیاسی موقف بنانے کی فکر کرنے والی پارٹیاں این ڈی اے سے دور ہورہی ہیں ۔ بہار انتخابات سے قبل لوک جن شکتی پارٹی نے بہار میں این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور علاقائی پارٹیاں بی جے پی حکومت کی پالیسیوں سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس سے دور ہورہی ہیں ۔ آندھرا پردیش کی جگن موہن ریڈی زیر قیادت وائی ایس آر کانگریس کی این ڈی اے سے قریب سیاسی اتحاد کا ایک نیا باب کھل رہا ہے ۔ اس طرح کی علاقائی پارٹیاں بظاہر سیکولرازم کا دم بھر کر ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پنا موقف الگ بتاتی آرہی ہیں ۔ مگر جگن موہن ریڈی نے این ڈی اے کے پلیٹ فارم کو منتخب کر کے اپنے سیاسی مستقبل پر ایک ضرب لگائی ہے ۔ اس ضرب کا اثر آگے چل کر دکھائی دے گا ۔ آندھرا پردیش میں بھی کسانوں کے مسائل ہیں ۔ یہ ریاست بھی کسانوں کی پیداوار پر انحصار کرتی ہے ۔

پنجاب اور ہریانہ کی طرح آندھرا پردیش کے کسان بھی مرکز کی زرعی پالیسیوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن جگن موہن ریڈی نے اپنی ریاست کے کسانوں کی عزت و نفس کو بالائے طاق رکھ کر این ڈی اے کے پلیٹ فارم پر پہونچنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے سیاسی عواقب و نتائج بھی شدید برآمد ہوں گے ۔ علاقائی پارٹیوں کا افسوسناک مسئلہ یہ ہے کہ یہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے رائے دہندوں کو دھوکہ دیدیتی ہیں اور سیاسی مفادات کو ترجیح دے کر مرکز سے ہاتھ ملا لیتی ہیں ۔ نظریاتی اختلافات اور پارٹی منشور کے برعکس پالیسیوں کے باوجود مرکز کی پارلیمنٹ کے اندر تائید بھی کرتی ہیں پارلیمنٹ کے باہر تو یہ پارٹیاں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی شدید نقاد ہوتی ہیں اور جب پارلیمنٹ میں حکومت کی مرضی کی حمایت کرنی ہوتی ہے تو یہ علاقائی پارٹیاں خاموشی سے مرکز کا ساتھ دیتی ہیں ۔ یہ ہندوستانی سیاسی اور علاقائی سیاست کا ایک بڑا صدمہ انگیز سچ ہے ۔ ماضی میں تلگو دیشم لیڈر چندرا بابو نائیڈو نے بھی بی جے پی کا ساتھ دیا تھا جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا ہے ۔ اب اگر جگن موہن ریڈی بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر بی جے پی کا ساتھ دیں گے تو آندھرا پردیش کے عوام خاص کر سیکولر رائے دہندے جگن موہن ریڈی کو معاف نہیں کریں گے ۔ زرعی بلوں کے مسئلے پر شرومنی اکالی دل سے این ڈی اے سے علحدگی اختیار کی تو اس سے بی جے پی کی ساکھ کو دھکہ لگا تھا لیکن اب وائی ایس آر کانگریس کے این ڈی اے کے قریب آنے سے بی جے پی کو موقع مل جائے گا کہ اس کی پالیسیاں درست حق بجانب ہیں اور شرومنی اکالی دل ہی غلط تھی ۔ بہر حال سیاسی مفادات کے اس مکروہ مظاہرہ کا خمیازہ جگن موہن ریڈی کو بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا ۔۔