ایودھیا فیصلہ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی ایودھیا فیصلہ آج سنایاجائے گا

,

   

فیصلے کے پیش نظر ایودھیا کیس کی سنوائی کرنے والے تمام ججوں کی سکیورٹی میں اضافہ کردیاگیاہے
نئی دہلی۔متنازعہ ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ آج یعنی ہفتہ کے روز اپنا فیصلہ سنایاگا‘ جس کے ساتھ ہی سالوں سے چل رہے مقدمہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے گا۔

مذکورہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی اپنے دیگر چار جج ساتھیوں کے ساتھ جمعہ کی رات تبادلہ خیال کے بعد لیاہے۔

فیصلے کے بعد کسی بھی طرح کی مزاحمت یا مخالفت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر سکیوٹی انتظامات کردئے گئے ہیں۔مذکورہ تاریخی فیصلہ صبح 10:30سنائے جانے کی توقع ہے۔

جمعہ کی رات تک کوئی تاریخ کی وضاحت نہیں تھی‘ سوائے اس بات کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کے ریٹائرمنٹ سے قبل17نومبر تک فیصلے سنائے جانے کا قیاس لگایاجارہا تھا۔

چالیس دنوں تک لگاتا سنوائی کے بعد اس کیس میں پانچ ججوں کی دستوری بنچ جس کی نگرانی سی جے ائی رنجن گوگوئی کررہے تھے نے 16اکٹوبر کے روز اپنا یہ فیصلہ محفوظ کردیاتھا۔ بنچ کے دیگر ججوں میں جسٹس ایس اے بابڈی‘ ڈی وائی چندرچوڑ‘ اشوک بھوشن اور ایس اے نظیر شامل ہیں۔

قبل ازیں جمعہ کے روز سی جے ائی گوگوئی نے اترپردیش کے عہدیداروں سے اس ضمن میں نظم ونسق کے انتظامات پر تبادلہ خیال کیا۔

ایودھیا میں جہاں پر متنازعہ مقام ہے بارہ ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے‘ تاکہ کسی بھی قسم کے تشدد کو روکا جاسکے۔

اس کے علاوہ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے اترپردیش میں تمام اسکولوں‘ کالجوں‘ تعلیمی اداروں‘ تربیتی مراکز کو پیر تک بند رکھنے کے احکامات جاری کردئے ہیں‘ اسی طرح کے احکامات کرناٹک‘ مدھیہ پردیش‘ جموں‘ دہلی او رراجستھان میں بھی جاری کئے گئے ہیں۔

فیصلے کے پیش نظر سلسلہ وار ٹوئٹس جو ہندی میں ہیں وزیراعظم نریندر مودی نے کئے ہیں او راس میں لوگوں سے امن وامان قائم رکھنے اور فیصلے کو تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔حکومت نے بھی مذکورہ پانچ ججوں کی سکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔

لکھنو او رایودھیا میں ہیلی کاپٹر رکھے گئے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی ضرورت کے طور پر اس کا استعمال کیاجاسکے۔

دہلی میں بھی حفاظتی اقدامات اور سخت کردئے گئے ہیں۔سال1980کے دہے سے ہندو او رمسلمانوں دونوں گروپوں میں اس کیس کو لے کر حساسیت ہے اور مسلمان وہاں پر مندر کی موجودگی کی ثبوت مانگ رہے ہیں جبکہ ہندو گروپ متنازعہ مقام پر مندر ہونے کا دعوی پیش کررہا ہے۔

سال1992میں سولہویں صدی میں تعمیر کردہ بابری مسجد کو دائیں بازو گروپ کی تنظیم کے کارکنوں نے منہدم کردیاتھا۔

جس کے بعد ملک بھر میں فسادات رونما ہوئے اور دو ہزارسے زائد لوگ اس میں مارے گئے تھے۔

ستمبر2010کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں فیصلے سناتے ہوئے متنازعہ مقام کو تین فریقین میں تقسیم کردیاتھا‘ جو سنی وقف بورڈ‘ نرموہی اکھاڑے اور رام للاشامل ہیں