ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کی بہادری کو سلام: سابق جسٹس مارکندے کاٹجو

,

   

نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون ہارپرلی کے مشہور ناول ”ٹوکل ایک موکنگ برڈ“ کے ایک کردار باہمت وکیل اٹیکس فنچ کی یاددلاتے ہیں‘ جوامریکی ریاست الباما میں ایک سیاہ فام شخص کے مقدمہ کی بہادری سے پیروی کرتا ہے جس پر ایک سفید فام عورت نے عصمت ریزی کا جھوٹا الزام عائد کیا ہوتا ہے۔ اٹیکس فنچ سفید فام نسل پرستوں کی جانب سے اپنے اوراپنے اہل خانہ کے خلاف دھمکیوں اور اپنے شہر کے لوگوں کے ذریعہ بائیکاٹ کے باوجود اس مقدمہ کی پیروی کرتا ہے۔ جب فنچ کی لڑکی اسکاؤٹ اس سے سوال کرتی ہے کہ وہ ایک سیاہ فام کا مقدمہ کیوں لڑرہے ہیں تو فنچ جواب دیتا ہے کہ ا س کی کئی وجوہات ہیں تاہم اہم وجہ یہ ہے کہ اگر میں نے یہ مقدمہ نہیں لڑا تو میں اپنا سر بلند نہیں رکھ سکوں گا۔“

اجودھیا زمینی تنازعہ میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی پیروی کررہے ڈاکٹر راجیودھون کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں اور ان کے کلرک کو عدالت کے احاطہ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ان سب باتوں میں اس بات کو فراموش کیا جارہا ہے کہ ایک وکیل اپنا پیشہ وارانہ فرض نبھارہا ہے او را س کی شناخت اس کے موکل کے ساتھ نہیں کی جاسکتی۔میں ڈاکٹر راجیو دھون کو ایک طول عرصہ سے جانتا ہوں۔ ہم الہ آباد کے اسکول او رپھر الہ آباد یونیورسٹی کے قانون کے کورس کے دوران ہم جماعت رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر راجیو دھون کو ہندوستان کے سبھی سینئر وکلاء میں سب سے احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء سمیت دیگر اپنے مفاد کیلئے غیر مناسب سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر دھون کبھی بھی ایسا نہیں کرتے او ران کی یہ صفت ہے جو انہیں ہندوستان کے باقی وکلاء سے ممتاز کرتی ہے۔ہندوستان میں موجود آج کے فرقہ وارانہ ماحول میں شائد ہی کسی سینئر وکیل نے مسلم فریق کی پیروی کرنے کی ہمت دکھائی ہوتی لیکن ڈاکٹر دھون اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹے اور پیشہ وارانہ اخلاقیات کا مظاہرہ کیا۔

جن عظیم انقلابی قلم کار تھامس پین کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ان پر 1972ء میں مشہور کتابچہ ”وی رائٹس آف پین“ لکھنے کی پاداش میں غداری کا مقدمہ چلاگیا تو مشہور وکیل تھامس ارسکنسے ا س مقدمہ کی پیروی کیلئے درخواست کی گئی۔ اس وقت تھامس ارسکن شہزادہ ویلس کے اٹارٹی جنرل تھے اور انہیں انتباہ دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے یہ پیروی قبول کی تو انہیں نوکری سے فارغ کردیا جائے گا۔لیکن انہوں نے مقدمہ کی پیروی قبول کی اور انہیں فوری طور پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ تاہم اس سلسلہ میں ان کے لافانی الفاظ آج بھی قانونی تاریخ میں باز گشت کررہے ہیں۔ ارسکن نے تھا کہ اگر کسی وکیل کو یہ کہنے کی اجازت دے دی جائے کہ وہ تاج و تخت اور عوام کے درمیان مقدمہ کی پیروی کیلئے کھڑا نہیں ہوگا تواسی لمحے سے انگلستان کی آزادی ختم ہوجائے گی ۔ اگر کوئی وکیل پیروی کرنے سے انکار کرتا ہے جس کو وہ الزام یا قابل دفاع سمجھتا ہے تو ایک طرح سے وہ خود کو جج سمجھ بیٹھتا ہے کیونکہ وہ فیصلہ سے قبل ہی مفروضہ قائم کرلیتا ہے۔“

ہندوستانی وکلاء نے اس عظیم روایت کی پیروی کی ہے۔ سامراجی دور میں بنگال کے انقلابیوں کی پیروی ہمارے وکیلوں نے کی۔مشہور زمانہ میرٹھ سازش کیس میں کمیونسٹو پر الزامات‘ حیدرآباد کے رضا کاروں‘ شیخ عبداللہ او را ن کے ساتھی‘ مہاتما گاندھی کے قاتل‘ ڈاکٹر ونائک سین‘ اندرا گاندھی کے قاتل‘ اجمل قصاب‘ یعقوب میمن‘ افضل گرو اور بھیما کورے گاؤں کے ملزمین کے مقدمات وغیرہ کی ہمارے وکلاء نے پیروی کی۔ کسی بھی معروف وکیل نے اس بنیاد پر اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کی۔ کیونکہ ایسا کرنا انہیں غیر مقبول کردے گا یا یہ ذاتی طو رپر ان کے لئے خطرناک ہوگا۔ سپریم کورٹ یں اے ایس محمد رفیع بنام ریاست تمل ناڈو کے فیصلے میں راقم نے مشہور امریکی وکیل کلیرنس ڈیرو کا حوالہ دیا تھا جس نے انتہائی برے اور قابل نفرت ملزمین کی بھی پیروی کی‘ کیونکہ اسے اس با ت پر یقین تھا کہ ہر شخص کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس ہیوگو بلیک نے تبصرہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ ”لارڈ ارسکن، جیمس اوٹس،کلیرنس ڈیرو او رمتعدد دیگر نے ملزمین او راپنے موکلین کے دفاع میں بولنے کی جرأت دکھائی اور اس کے لئے کسی طرح کے ذاتی نقصان کی پرواہ نہیں کی۔قانون کا پیشہ بہت حد تک اپنی شرافت اور عظمت کھودے گا او راگر اسے مستقل اس طرح کے وکلاء بہم نہ ہوسکیں۔بار کو قدآمت پسندوں کے گروپ،موقع پرستی اور حکومت سے ڈرنے والے لوگوں میں تبدیل کرنے پر مجبور کرنا دراصل اس پیشہ کی تذلیل او راس کے وقار کو گرانا ہے۔ ڈاکٹر راجیو دھون ہندوستان بار کے اٹیکس فنچ او رکلیرنس ڈیرو کی طرح ہیں۔ ڈاکٹر دھون زندہ باد!
مضمون نگار مارکندے کاٹجو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس ہیں۔