ایک افسوسناک حقیقت

, ,

   

بہ حیثیت مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مال میں کچھ حقوق بھی رکھے ہیں، ایک حق تو زکوۃ کا ہے، جو صرف ڈھائی فی صد ہے، اس کے علاوہ بھی اگر کوئی سوالی یا نادار شخص سامنے آجائے اور اپنی ضرورت رکھے تو اس کا بھی حق ہے کہ وقت پر اس کی مدد کی جائے: { وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ } (الذاریات: ۱۹) یہ بات قابل لحاظ ہے کہ قرآن مجید نے ’’حق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی یہ تعاون کوئی احسان نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان پر واجب ہے، اگر وہ غرباء کی مدد کررہے ہیں تو ان کا حق ادا کررہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اہل ثروت میں غریبوں کے حق کا احساس ختم ہوگیا ہے، یہاں تک کہ وہ زکوۃ دینے کو بھی اپنا احسان سمجھنے لگے ہیں، اس کا اندازہ ان کے اس رویہ سے ہوتا ہے، جو انہوں نے زکوۃ کے مستحقین اور دینی مدارس کے نمائندوں کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے، سیٹھ صاحب کے گھر پر یا دکان پر مانگنے والے مردوں اور عورتوں کی قطار لگی ہوئی ہے، لوگ آہ وزاری کررہے ہیں، ان کا الحاح جتنا بڑھتا جاتا ہے، سیٹھ صاحب کے غصہ کی آگ بھی اسی قدر تیز ہوتی جاتی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ گالی گلوج کی بھی نوبت آجاتی ہے، مدارس کے نمائندے تو شاید اس طرح لائن میں نہ لگتے ہوں اور اس نوبت سے نہ گزرے ہوں؛ لیکن ان کو دوسرے طریقہ پر ایذاء پہنچائی جاتی ہے، موجود ہونے کے باوجود کہلادیا جاتا ہے کہ موجود نہیں ہیں، بار بار بلایا جاتا ہے، کبھی صبح، کبھی دوپہر، کبھی شام اور کبھی رات، اس کے علاوہ جھڑکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ