ایھاالناس فلسطین کی آواز سنو

,

   

مودی حکومت ۔عربوں سے محبت، فلسطین سے نفرت
منی جنرل الیکشن … کانگریس کا پلڑا بھاری

رشیدالدین
’’عربوں سے محبت، فلسطین سے نفرت‘‘ یقیناً یہ بات ہر کسی کو ہضم نہیں ہوئی کیونکہ آزادی کے بعد سے ہندوستان فلسطین کاز اور فلسطینیوں کے حقوق کی تائید کرتا رہا ہے لیکن آج نریندر مودی کے امرت کال میں سب کچھ بدل چکا ہے۔ وزیراعظم کو عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہوں سے والہانہ محبت اور عقیدت ہے۔ جب کبھی کسی عرب حکمراں کا سامنا ہوتا ہے تو مودی بے ساختہ بغلگیر ہوجاتے ہیں، جیسے برسوں بعد بچھڑے دوست ملے ہوں۔ عرب قائدین ہندوستان کے دورہ پر پہنچے تو استقبال میں آنکھیں بچھادی جاتی ہیں جیسے ان سے زیادہ کوئی اور گہرا دوست نہیں۔ عرب قائدین آتے ہی نریندر مودی کو ہندوستان میں مذہبی آزادی اور رواداری کا خیال آجاتا ہے ۔ نریندر مودی کے اسی فن نے عربوں کو ان کی حقیقت سے غافل رکھا ہے۔ اتنا ہی نہیں کئی عرب ممالک نے انہیں اپنے ملک کے اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز سے نوازا ہے۔ اگر مودی پاکستان کے ساتھ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں تو ’’نشان پاکستان‘‘ اعزاز بھی حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ اس لئے ممکن نہیں کیونکہ پاکستان اور مسلمان بی جے پی کا انتخابی موضوع ہے۔ پاکستان سے دوستی اور ہندوستان کے مسلمانوں سے ہمدردی ہوجائے تو بی جے پی اور کانگریس میں کوئی فرق نہیں رہے گا اور ہندوتوا ایجنڈہ دم توڑ دے گا۔ عرب ممالک سے دوستی دراصل ان کے تیل اور دولت کی وجہ سے ہے ۔ ہندوستان کو رعایتی شرح پر تیل کے علاوہ ریال اور دینار کی شکل میں سرمایہ کاری چاہئے ۔ عرب ممالک میں لاکھوں ہندوستانی ہیں جو بھاری زر مبادلہ ہندوستان منتقل کر رہے ہیں ، لہذا عربوں سے نفرت یا دوری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مودی اور ان کے ساتھیوں کیلئے عربوں سے دوستی ایک مجبوری ہے۔ عرب دنیا سے مالی مفادات نہ ہوتے تو مودی کا رنگ اور ڈھنگ مختلف ہوتا۔ جہاں تک فلسطین کا معاملہ ہے ، مودی حکومت کی ترجیح اسرائیل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان فطری حلیف ہیں۔ دونوں میں تیل یا پھر مالی مفادات بھلے ہی نہ ہوں لیکن مسلم دشمنی میں دونوں کا ایجنڈہ یکساں ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملہ میں ہندوستان نے اسرائیل کی ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی حاصل کی ہے ۔ کشمیر میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے اسرائیل کی حکمت عملی کا ہندوستان میں استعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیوں کو صورتحال سے نمٹنے کی ٹریننگ اسرائیل نے دی ہے ۔ یو پی اے دور میں اگرچہ زراعت اور دیگر شعبہ جات میں اسرائیل سے باہمی تعاون میں اضافہ ہوا لیکن 2014 ء میں مودی حکومت کی تشکیل کے بعد دفاع اور داخلی سلامتی جیسے اہم شعبوں میں اسرائیل کو ہندوستان کے ٹیوٹر کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اسرائیل نے جس طرح فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے نت نئے طریقے اختیار کئے، اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں اور جہدکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بنجامن نتن یاہو اور مودی ایک دوسرے کو جگری دوست کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ نتن یاہو اور نریندر مودی میں مخالف مسلم اور مخالف اسلام جذبات یکساں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مودی نے اسرائیل میں اپنے دوست اڈانی کو متعارف کیا اور وہاں کا ایک اہم پورٹ اڈانی کمپنی کو دلانے میں کامیاب رہے۔ ہندوستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتخانہ کے قیام میں پی وی نرسمہا راؤ کا اہم رول ہے لیکن نریندر مودی نے باہمی رشتوں کو عروج پر پہنچادیا اور عرب دنیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کو بے خاطر کردیا۔ اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائی کو دہشت گردی سے منسوب کیا جارہا ہے حالانکہ دونوں طویل عرصہ سے عملاً حالت جنگ میں ہیں۔ بیت المقدس اور غزہ میں حالیہ عرصہ میں اسرائیلی فوج کی بربریت اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے کا معاملہ صبر کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔ حماس نے اپنی طاقت اکٹھا کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی اور اسرائیل کو بتادیا کہ غیرت اسلامی کیا ہوتی ہے۔ اسرائیل میں صف ماتم کیا بچھی نریندر مودی تڑپ اٹھے اور اسرائیل کی تائید کا اعلان کردیا ۔ اتنا ہی نہیں وہ نتن یاہو سے فون پر رابطہ میں آگئے۔ ملک چاہے کوئی ہو انسانی ہلاکتوں پر افسوس ہوتا ہے لیکن مودی کو اسرائیلیوں کی موت کا غم ہے لیکن غزہ میں ناکہ بندی کے ذریعہ فلسطینیوں کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کا کوئی افسوس نہیں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت پر افسوس نہیں ہوا ، وہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہمدردی کرے گا۔ گجرات میں مرنے والوں کا تقابل مودی نے ’’کتے کے بچہ‘‘ سے کیا اور کہا تھا کہ کار کے نیچے آکر کتے کی بچہ کی موت پر تکلیف تو ہوتی ہے۔ مودی نے آزادی کے بعد سے ہندوستان کی موافق فلسطین پالیسی سے انحراف کرلیا ۔ مودی نے اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے عرب دنیا میں ہندوستان کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ مودی آزاد ہندوستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے فلسطینی مسلمانوں کے مقابلہ ظالم اسرائیل کی تائید کی۔ ملک کی روایات کا انہیں کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ مودی کو دراصل مسلمانوں اور ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے ، لہذا وہ ڈنکے کی چوٹ پر اسرائیل کی تائید کر رہے ہیں۔ مودی کے موجودہ موقف کے لئے عرب ممالک بھی ذمہ دار ہیں جو فلسطین کے ساتھ محض زبانی ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر عرب ممالک زبانی ہمدردی کے بجائے کھل کر فلسطینی مجاہدین کی تائید کرتے تو ہندوستان اسرائیل کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ عرب ممالک درپردہ اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے ہندوستان ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں اور اسلام پر حملوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔
فلسطین کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی حکومتوںکی تبدیلی کے باوجود برقرار رہی۔ 1977 ء میں جنتا پارٹی حکومت میں اٹل بہاری واجپائی وزیر خارجہ تھے۔ ان کی ایک تقریر سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہے جس میں واجپائی نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے عربوں کی زمین پر اسرائیلی قبضہ کی برخواستگی کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ عربوں کی زمین خالی ہونی چاہئے اور فلسطینیوں کے اختیارات اور حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ اٹل بہاری واجپائی ہمیشہ ہی آزاد مملکت فلسطین کی تشکیل کے حامی رہے لیکن نریندر مودی اسرائیل۔فلسطین تنازعہ کو اپنے دوست اڈانی کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل میں اڈانی کی سرمایہ کاری کو نقصان سے بچانے کیلئے وہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے فلسطین کی کھل کر تائید کی جس پر بی جے پی نے دہشت گردوں کی تائید کا الزام عائد کردیا۔ دوسری طرف ملک میں منی جنرل الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، میزورم اور تلنگانہ میں انتخابی عمل ڈسمبر کے پہلے ہفتہ میں مکمل کرلیا جائے گا ۔ ہندی بیلٹ کی تین اہم ریاستوں اور تلنگانہ کے الیکشن کو ملک کے منی جنرل الیکشن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق کانگریس پارٹی چھتیس گڑھ میں اپنا اقتدار بحال رکھے گی اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی سے اقتدار چھین لے گی۔ راجستھان میں کانگریس کو بی جے پی سے کانٹے کی ٹکر ہے لیکن لمحہ آخر میں فیصلہ کانگریس کے حق میں ہوسکتا ہے۔ تلنگانہ میں 10 سال تک اقتدار میں رہنے والی بی آر ایس کیلئے کانگریس پارٹی خطرہ بن چکی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو منی جنرل الیکشن میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے اور آئندہ لوک سبھا انتخابات پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ بی جے پی کو مدھیہ پردیش اور راجستھان میں گروہ بندیوں اور ناراضگیوں کے سبب نقصان ہوسکتا ہے۔ نریندر مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا نے مہم کی کمان سنبھال رکھی ہے لیکن پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی کی مقبولیت کے آگے یہ تینوں کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔ دراصل طویل عرصہ تک آزمائش اور امتحان کے دور سے گزرنے کے بعدراہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے سیاست کے گر سیکھ لئے ہیں اور یہ دونوں بی جے پی کے لئے اہم خطرہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد انڈیا میں شامل پارٹیوں نے کانگریس کی قیادت میں لوک سبھا انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ گاندھی خاندان ہی مودی ۔ امیت شاہ کے جادو کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر کیفی اعظمی کی نظم ’’مقتل بیروت‘‘ کا یہ شعر قارئین کی نذر ہے ؎
ایھاالناس فلسطین کی آواز سنو
جان پر کھیلے کس طرح سے جانباز سنو