ای وی ایم سے جمہوریت کا اغواء

   

شیخ اسمعیل
بیالٹ پیپر کے ذریعہ حق رائے دہی کا استعمال یا ووٹ دینا جمہوریت میں عوام کا طاقتور ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بیالٹ (ووٹ) بلٹ (بندوق کی گولی) سے زیادہ طاقتور ہے جس کے ذریعہ عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اپنے نمائندہ کو حکومت کرنے کیلئے منتخب کرسکتے ہیں۔ عوام ہی اپنے نمائندہ کی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں اسے دوبارہ منتخب کرسکتے ہیں یا پھر اسے تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیالٹ عوامی نمائندوں کو عوام کے مشکلات پر توجہ دینے کی جانب راغب کرتے ہیں اور وہ (نمائندہ) بلدی و کمیونٹی کی ضروریات پوری کرنے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے جمہوریت کو عوام کی ، جمہوریت عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے کہا جاتا ہے یعنی جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعہ ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کردار اور اس کے تباہ کن اثرات
جب سے بیالٹ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) سے تبدیل کیا گیا ہے۔ رجحان تبدیل ہوگیا ہے یا تبدیل کردیا گیا ہے۔ ای وی ایم بھی ایک فریق بن گیا ہے، باالفاظ دیگر جس طرح جمہوریت میں حکومت عوام کی، عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے ہوتی ہے، اسی طرح ای وی ایم اب صرف ایک پارٹی کا اس پارٹی کے ذریعہ اور اس پارٹی کیلئے بن گیا ہے اور بلاشبہ اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ وہ (ای وی ایم) پارٹی کا اصل چہرہ بن گیا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کا کردار گھٹ کر رہ گیا ہے یا پھر ای وی ایم کے ذریعہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپوزیشن کے کردار کو خطرناک حد تک گھٹا دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین جمہوری اصولوں کیلئے ظالمانہ ثابت ہوئی ہے اور جس نے آمرانہ طرز حکمرانی کی راہ ہموار کی ہے اور یہ وہی ہے جو ہم برسراقتدار بی جے پی کے دور سے دیکھ رہے ہیں جو 2014ء سے مرکزمیں اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عوام اور اپوزیشن جماعتوں نے ای وی ایم ہٹاکر بیالٹ پیپر بحال کرنے کی بار بار درخواستیں کی لیکن حکومت اور الیکشن کمیشن نے ان درخواستوں پر کوئی توجہ نہ دی اور بڑی حقارت کے ساتھ انہیں مسترد کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ جب عوام اور اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس معاملے میں عدالتوں سے رجوع ہوئیں تب بھی اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ عدلیہ، الیکشن کمیشن جیسے دستوری ادارے غیرمستحکم کردیئے گئے اور مقننہ یا ایگزیکٹیو موافق سرمایہ دار اور عوام دشمن ہوگئی۔ مقننہ جسے جمہوریت کا مندر سمجھا جاتا ہے، جہاں عوام کی جانب سے مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور اپوزیشن ان مسائل کو حکومت کے علم میں لاکر حل کرواتی ہے، اس کی ماضی کی شان و شوکت اس کا وقار گھٹتا جارہا ہے۔ اب یہ حال ہوگیا ہے کہ مقننہ میں عوام دشمن اور سرمایہ کاروں کے موافق پالیسیاں منظور کی جارہی ہیں اور اپوزیشن کی آواز بند کی جارہی ہے اور اس کیلئے اپوزیشن کو ڈرانے دھمکانے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے اور اس کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین ؍ سماجی و حقوق انسانی کے جہد کاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں ڈرانے دھمکانے کیلئے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ اگر اپوزیشن قائدین حکومت کی ناکامیوں و بدعنوانیوں پر سوال اٹھاتے ہیں تو پھر انہیں تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ حکومت کے اقدامات اور فیصلوں پر جو کوئی سوال اٹھاتے ہیں، انہیں ہراساں و پریشان کرکے جیلوں میں ٹھوس دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے آخری اور چوتھے ستون صحافت یا ذرائع ابلاغ کا بھی برا حال ہے۔ وہ عوام کی طرف سے اقتدار کی راہداریوں میں بیٹھے عناصر سے کوئی سوال نہیں کرتا جس کے نتیجہ میں عوام بڑے پیمانے پر متاثر ہورہے ہیں، بیروزگاری ، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بھوک اور صحت کے مسائل، یہاں تک کہ عوام بنیادی بلدی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ ان کا معیار زندگی بھی گر گیا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں قوم قومی مجموعی پیداوار میں گراوٹ اور خراب معاشی حالت سے دوچار ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں کی توجہ اصل و حقیقی مسائل سے ہٹا دی گئی اور اقتدار میں رہنے کیلئے انگریزی سامراج کے قدیم اصول ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی خطرناک پالیسی پر عمل آوری کی جارہی ہے، صرف اور صرف اقتدار پر قابض رہنے ملک میں نفرت کو فروغ دیا گیا، فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات کو یقینی بنایا جارہا ہے اور پرامن طور پر رہنے والے لوگوں میں ہم آہنگی کی بجائے اختلافات پیدا کئے جارہے ہیں، انہیں مذہب کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے، مسلم اقلیتوں، ایس سیز اور ایس ٹیز کے ساتھ ساتھ کمزور طبقات کو نشانہ بنایا گیا اور بنایا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے دستوری حقوق پامال کئے گئے ہیں اور انہیں آئینی حقوق سے محروم کئے جانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں جس کے باعث آج مسلم اقلیت درج فہرست قبائل و درج فہرست ذاتیں دوسرے درجہ کے شہریوں کی حیثیت سے اعلیٰ ذات والوں کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بہرحال عوام کی حالت ِ زار اور ملک کی افسوسناک صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر ہمارے وزیراعظم اس قدر انسانیت نواز ہے کہ وہ مسلسل بیرونی ممالک کے دورے کررہے ہیں۔ وہ ذہنی تناؤ کو دور کرنے اور دنیا کی رنگینی سے محظوظ ہونے کیلئے شاید ان ملکوں کے دوروں پر دورے کئے جارہے ہیں۔ ان دوروں پر اربوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں اور ان کا بوجھ کسی پارٹی پر نہیں بلکہ سرکاری خزانہ پر پڑ رہا ہے۔ ان دوروں سے کوئی کامیابی ملی ہے تو وہ بھی مشکوک ہے۔ وزیراعظم کے بیرونی دوروں کے بارے میں یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ان سے بیرونی شراکت داروں میں ہندوستان کی شبیہ بہتر ہوئی ہے۔ مقامی ، علاقائی اور عالمی مسائل پر ہندوستان کے نقطہ نظر سے متعلق دنیا بھر کے ملکوں میں شعور بیدار ہوا ہے۔ویسے بھی مرکز میں بی جے پی اقتدار یا حکومت کے دوران عالمی سطح پر ہندوستان کی کیا امیج بنی ہے، اس بارے میں سب جانتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ملک کے کسی وزیراعظم نے بیرونی ملکوں کے اتنے زیادے دورے نہیں کئے ہوں گے اور اپنے دوروں سے سرکاری خزانے پر بوجھ عائد نہیں کیا ہوگا، جتنے ہمارے موجودہ وزیراعظم نے کئے۔
اپوزیشن کی ناکامی
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مرکز میں حکمراں بی جے پی کی چال میں پوری طرح پھنس گئی ہیں اور ای وی ایم کے استعمال کے مخالف ہونے کا ڈرامہ کررہی ہیں۔ اگر وہ ای وی ایم کے استعمال کے خلاف ہیں تو انہیں متحد ہوکر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے تھا اور الیکشن کمیشن کو یہ انتباہ دیا جانا چاہئے کہ اگر ای وی ایم کی جگہ بیالٹ پیپر دوبارہ بحال نہیں کیا گیا تو ہم (اپوزیشن جماعتیں) انتخابات کا بائیکاٹ کریں گی۔ اپوزیشن ایسا لگتا ہے کہ جب بھی انتخابات منعقد ہوتے ہیں، اپوزیشن صرف الزامات عائد کرنا شروع کردیتی ہے۔
رائے دہی کے عمل میں
مسلم شراکت داری
حالیہ عرصہ کے دوران گجرات، ہماچل پردیش اور دہلی بلدیہ کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ہم نے وہاں رائے دہی کا مشاہدہ بھی کیا۔ ووٹوں کی گنتی اور اس سے قبل یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور دوسری ریاستوں کے انتخابی نتائج کا بھی ہم نے مشاہدہ کیا۔ ہمارے مشاہدے میں اغوا، مسلم رائے دہندوں پر پولیس کے حملوں (اترپردیش کے حلقہ اسمبلی رامپور میں اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں) جیسے واقعات بھی آئے ہیں جس کے بارے میں میڈیا میں بھی اطلاعات گردش کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ مسلم خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا، مسلم رائے دہندوں کو رائے دہی سے روکا گیا۔ پولیس اور نہ ہی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن یہاں تک کہ عدالتیں بھی ان کے تحفظ کیلئے آگے نہیں آئیں۔
ہاں اس تعلق سے سپریم کورٹ میں ایک (پرائیویٹ) کیس دائر کیا گیا۔ ان حالات میں مسلمان خاص طور پر ایک ایسے وقت جبکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان کی تائید نہیں کررہی ہے بلکہ ان کا ووٹ بینک کے طور پر استعمال کررہی ہے، اُن پارٹیوں سے چوکس رہیں جو مسلم (بشمول دلتوں، بہوجنوں وغیرہ) کی بہبود کے نام پر بنائی گئی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اب انتخابات میں حکمراں بی جے پی کی B ٹیم کے طور پر کام کررہی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیتہ العلمائے ہند ، جماعت ِ اسلامی وغیرہ کو 2024ء کے عام انتخابات کیلئے خصوصی حکمت عملی طئے کرنی چاہئے۔