’’اﷲ دیکھ رہا ہے ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
اﷲ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق سے باخبر ہے وہ ہمیں دیکھتا بھی ہے اور ہماری باتیں بھی سُنتا ہے اور ہمارے دل کی باتوں کو جانتا بھی ہے ۔ مگر افسوس کہ ہم اس حقیقت سے بے خبر ہیںاور رات دن گناہ در گناہ کئے جاتے ہیں ۔ انسان کا سب سے بڑا دُشمن خود اُس کا نفس ہے جس پہ شیطان حاکم ہے ، جو ہمیں نیکی سے روکتا ہے اور بُرائی کی طرف راغب کرتا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا !
’’تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیَہ روز رہے پھر نہ سیَہ کار رہے ‘‘
’’اﷲ دیکھ رہا ہے ‘‘ کا یقین ہی تقویٰ کہلاتا ہے جسے اختیار کرنے کا قرآن حکیم میں اور احادیث مبارکہ میں بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ دن کے اُجالوں میں ، رات کے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اُن چیزوں سے دور رہے جن سے منع کیا گیا ہے۔
’’اﷲ دیکھ رہا ہے‘‘ کا احساس اُس کے لئے گناہوں سے آڑ بن جاتا ہے ، عشق الٰہی اور عشقِ رسولؐ کی لذت اور مٹھاس اُسے سمجھنے آنے لگتی ہے اور وہ بزبان علامہ اقبال ؔ یوں کہہ اُٹھتا ہے ؎
’’ شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ ’اللہ‌ھوٗ‘ میرے رَگ و پَے میں ہے ‘‘
تقویٰ ایسی نعمت ہے جو ایک مسلمان کو روزوں میں سخت گرمی اور بھوک و پیاس کی حالت میں بھی پانی اور کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روکتا ہے ۔
رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا ، ’’احسان کیا ہے ؟ ‘‘ فرمایا آپ ﷺ نے احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی ایسی عبادت کر گویا تو اُسے دیکھ رہا ہے اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم یہ یقین کرلے کہ اﷲ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔ (متفق علیہ ) جو لوگ رات کے اندھیروں میں چھپ کر گناہ کرتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں مگر اﷲ سے نہیں چُھپ سکتے ۔ اُ س وقت بھی اﷲ اُن کے پاس ہوتاہے اور اُن کے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے ‘‘ ۔ ( سورۃ النساء ۱۰۸)
اﷲ نے ہر انسان کے بول اور اعمال کیلئے نگرانکار ( فرشتے ) مقرر کر رکھے ہیں جو چوبیس گھنٹے اُس کی ریکارڈنگ کرتے رہتے ہیں جس کا رجسٹر جب آخرت میں کھولا جائے گا تو وہ ہکا و بکا اور ششدر رہ جائے گا ۔ ( سورۂ ابراھیم) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اور ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ۔ ( سورۂ ق )
یاد رکھئے جو اﷲ کی رضا ء کے لئے ، اُس کے خوف سے ، دھوکہ بازی، ملاوٹ ، جھوٹ کسوٹ ، جلن و حسد ، ظلم و ستم سے بچتا ہے ۔ اُس کے لئے آخرت میں تو انعامات ہیں ہی ، دُنیا میں بھی عزتیں اور رفعتیں اُس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ جو یہ چاہتا ہے کہ اُس کی تکلیفیں دور ہوں ، مشکلات سے نجات ملے ، روزی کا بہترین انتظام ہو ، کاموں میں آسانی ہو ، اُس کے گناہ معاف ہوجائیں ، لوگ اُس کا احترام اور اُس سے محبت کرنے لگیں اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے ، اﷲ کی محبت ، اُس کی عظمت ، اُس کی پکڑ کا خوف اپنی رگ و پئے میں بسالے ۔ ان شاء اﷲ دونوں جہانوں کی راحتیں اُس کا استقبال کریں گی ۔
’’اﷲ دیکھ رہا ہے ‘‘ اس جملہ کو اپنے دل و دماغ میں پیوست کرلیں ، اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو سکھائیں اور ہوسکے تو اپنے گھروں میں ایسی جگہ آویزاں کریں کہ ہر آنے جانے والے کی نظر اُس پر پڑھتی رہے ۔ جاگ مسلماں جاگ ! بقول امجدؔ حیدرآبادی ؎
اعمالِ بد پہ اپنے نظر اب نہیں تو کب
او چلنے والے فکرِ سفر اب نہیں تو کب
وقت آگیا ہے قریب کہ ہوجائے آنکھ بند
نظارہ اُس کا نورِ نظر اب نہیں تو کب
بقول حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ’’اپنے باطن کو ٹھیک کرلو ، تمہارا ظاہر بھی ٹھیک ہوجائیگا ۔ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں کیا پیاری دعا سکھلائی : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدٰى وَالتُّقٰى وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰى۔
آئیں ہم یہ دُعا ہر نماز کے بعد مانگیں تاکہ ہم مثالی مسلمان اور اپنے ملک کیلئے ایک مثالی شہری بن سکیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں تقویٰ اور اپنا ڈر پیدا کرے ۔ ساری دُنیا کے لوگوں سے اور اُن کے نصف کردہ CCTV ( خفیہ کیمروں ) سے ڈرنے کے بجائے رب الکائنات کے ڈر سے گناہ اور نافرمانیاں چھوڑ دیں اور ہمارے اندر امانت داری ، سچائی ، حُسنِ احلا اور رزقِ حلال کی عادتیں پیدا کریں ۔ پھر دیکھیں زندگی کیسی سنورتی ہے ۔
’’ شگفتہ ہوکے کلی دل کی پھول ہوجائے
یہ التجائے مسافر قبول ہوجائے ‘‘