بائیکاٹ کے 12سال بعد‘ عرب حکومتوں نے سیریائی صدر اسد ا دوبارہ استقبال کیا

,

   

دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسدکے تعلقات کی بحالی پر مغربی حکومتیں ناراض تھیں۔
نکو سیا۔اس حقیقت کے باوجود کہ وہ بنیادی طور پر نصف ملین سے زیادہ شامیوں کی موت اور 12ملین لوگوں کو زبردستی نقل مکانی کاذمہ دار تھا‘ شام کے صدر بشر الاسد کا گذشتہ ماہ عرب لیگ میں دوبارہ خیر مقدم کیاگیاتھااور سرخ قالین پر مشتمل استقبال کیاگیاتھا۔

تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ بشر الاسد نے کوئی ندامت یا رعایت کی منشاء ظاہر نہیں کی اور نہ ہی پناہ گزینوں کی پرسکون انداز میں سزا کے خوف کے بغیر اپنے گھروں کو واپسی کا بھی کوئی وعدہ نہیں کیاہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کی مذمتوں کے باوجود رائیل پولٹیک پھر ایک مرتبہ غالب آگئی۔دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسدکے تعلقات کی بحالی پر مغربی حکومتیں ناراض تھیں اور تشویش کا اظہار کیاکہ اس سے سیریا میں طویل مدت سے چل رہی خانہ جنگی کو ختم کرنے کی کوششیں اس سے ماندپڑجائیں گی۔

اب تک مغربی حکومتیں اس دور حکومت پر عائد اپنے امتناعات کوبرقرار رکھنے کے لئے سنجیدہ دیکھائی دے رہی ہے۔وحشیانہ جبر کے نتیجے میں 12سال قبل بشر الاسد کی حکومت عوامی بغاوت کے ساتھ بکھر گئی تھی اورتقریباً سبھی کو اسبات کایقین تھا کہ اس کی حکومت جلد ہی ختم ہوجائے گی کیونکہ اس وقت کئی عرب ممالک باغیوں میں حمایت کررہے تھے۔

تاہم ایران او روس کی جانب سے حکومت کو ملنے والی بھرپور حمایت کی بدولت رفتہ رفتہ یہ بات واضح ہوگئی کہ بشر الاسد حکومت کو گرایا نہیں جائے گااور عرب حکومتوں نے رفتہ رفتہ یہ سونچنا شروع کردیاتھا کہ اسد حکومت کی واپسی ان کے مفاد میں ہے۔

اور شام کے معاملات میں ایران کے بڑھتے اسرورسوخ کومدد کیاجاسکے گا۔ پریس رپورٹس کے مطابق شام نے تسکری کے خلاف مہم شروع کرنے کاعہد کیاہے او رکیپٹونگ کی پیدوار او رتسکری سے نمٹنے کے لئے علاقائی سلامتی کوارڈنیشن کمیٹی کے قیام سے اتفاق کیاہے جسے کو دمشق کی حکومت نے ہتھیار بنایاتھا۔

آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسد کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ بغیر کسی سنجیدہ وعدے کے اور خاص طور پر ان لاکھوں پناہ گزینوں کو قبول کئے بغیر جو اسد کی حکومت کے خلاف تھے بحالی کی طرف گامزن ہے