’’بابری مسجد‘‘ تو باقی تاقیامت باقی زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ ناتمام سے

   

جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
مسجد کے لغت میں معنی ، سجدہ گاہ کے ہیں اور اصطلاح میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے کیونکہ عبادت میں سب سے اہم ترین رکن سجدہ ہے ، اس لئے اس کی اہمیت نیز بحالت سجدہ بندہ کی عجز و نیاز اور تواضع و مسکنت اور خدائے ذوالجلال کی عظمت و کبریائی کا اظہار ہوتا ہے اس لئے شریعت مطہرہ میں ’’عبادت گاہ ‘‘ کے لئے لفظ ’’معبد‘‘ کی بجائے ’’مسجد‘‘ کے نام کو اختیار کیا گیا ۔
مسجد درحقیقت خدا کا گھر ہے جو عبادت الٰہی کی بناء دیگر قطعات زمین سے انفرادی حکم رکھتی ہے ۔ فقہاء کی تصریحات کے مطابق مسجد اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے ۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمھما اللہ کے نزدیک مسجد ویران اور منہدم ہوجانے کے بعد بھی تاقیامِ قیامت مسجد ہی باقی رہتی ہے ۔ اس لئے زمین کو مسجد کے سوا کسی اور کام میں لینا شرعاً درست نہیں ہے ۔

اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہیکہ اس کی بنیادیں عدل و انصاف پر رکھی گئی ہیں، اس کی تعلیمات میں عدل و انصاف کا عنصر نمایاں نظر آئیگا اور یہی بات فطرت کے عین مطابق ہے ، اسلام کے عدل و انصاف کا معیار اہل اسلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بلالحاظ رنگ و نسل ، قوم و ملت سب کے لئے اس کے عادلانہ احکامات و منصفانہ تعلیمات ہیں ۔ یہی اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کی عدلیہ کا حددرجہ احترام رکھتا ہے ۔ مخفی مباد کہ از روئے شرع منہدمہ مسجد کے مقام پر مسجد کے علاوہ کسی چیز کی تعمیر جائز نہیں ہے ۔ مزید برآں اسلام اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں ۔ مسجد کو غیرقانونی طورپر توڑنا اور قانونی شکل میں اس پر مندر کی تعمیر کرنیکا فیصلہ شرعاً ناممکن و محال ہے ، اس کی کسی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اس کے باوصف ہندوستان کے اکابر علماء نے تمام مکاتب فکر کی اتفاقی آراء سے واضح طورپر اعلان کیا کہ ہم ہندوستان کے متوطن ہیں ، ہندوستان کے آئین اور دستور پر ہمارا ایقان ہے ، سپریم کورٹ کا موافق یامخالف ہر فیصلہ قبول ہے ۔ کیونکہ عدلیہ کا کام حقدار کو حق عطا کرنا ، مظلوم کی مدد کرنا ، اختلافات و تنازعات کی صورت میں حقیقت تک پہنچنا اور حقدار کو اس کا حق عطا کرنا ہے ، واضح رہے کہ شریعت میں مندر کو توڑنا اور اس کی زمین کو غصب کرکے اس پر مسجد بنانا حرام ہے اور اگر کوئی مندر توڑکر مسجد تعمیر کردے تو ایسی زمین پر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک نماز ہی صحیح نہیں ہوتی ۔ شریعت کے اس واضح حکم کے بعد مسلمان کو ہندوستان کی عدلیہ پر یقین تھا کہ وہ حقائق و دلائل و آثار و شواہد کی بنیاد پر اپنا موقر فیصلہ نافذ کریگی لیکن افسوس کہ ۱۹۴۹؁ء سے تاحال حکومت کے علانیہ اقدامات اور عدالت کے فیصلہ جات سے یہی ظاہر ہوا کہ غیرمسلم ادعاجات کو قانونی طورپر مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی نیز الہٰ آباد ہائیکورٹ میں حق ملکیت پر فیصلہ کے بجائے مصالحتی تجویز سے یہ واضح اشارہ مل گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوگا اس کے باوصف مسلمان بطور خاص مذہبی رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے ہر فیصلہ کو قبول کرنے کا اعلان کیا اور جب فیصلہ صد فیصد مسلمانوں کے خلاف آیا جس میں حقائق و شواہد پر عقیدہ و آستھا کی بنیادوں پر فیصلہ دیاگیا اس لئے ساری عدلیہ کے ماہرین انگشت بدنداں ہیں ، وہ خود حیرت میں ہیں کہ کس طرح مفروضات و تخیلات کو قانون کی بنیاد بنایا گیا۔ صرف اہل اسلام کو اس پر قلبی تکلیف نہیں ہے بلکہ غیرمسلم ججس ، وکلاء اور ماہرین قانون بھی بے چینی کا شکارہیں اور اُنھیں ہندوستان کے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے اس کے برخلاف شدت پسندوں نے کبھی ہندوستان کی عدلیہ کا احترام ملحوظ نہیں رکھا ، عدلیہ کے صریح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے بابری مسجد میں مورتی کو رکھا پھر اس کو شہید کیا اور اب اس پر مندر کی تعمیر کریں گے ۔ انھوں نے کبھی بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی بات نہیں کی ۔ آج سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آنے کے باوجود مسلمان عدلیہ کے احترام میں آزردہ ضرور ہیں مگر خاموش ہیں ، ان کو اپنی ناراضگی اور بے چینی کو ظاہر کرنے کا حق ہے لیکن اگر یہ فیصلہ مسلمانو ںکے موافق ہوتا اور شدت پسندوں کے خلاف ہوتا تو کیا وہ اس کو قبول کرلیتے ۔ قطعاً نہیں بلکہ فساد بھڑک اُٹھتا ، کون محب وطن ہے ؟کیا مسلمان حب الوطنی کا معیار نہیں ؟ کیا یہ شرپسندوں کو حب الوطنی کا دعویٰ زیب دیتا ہے ؟ کیا کسی مسجد میں غیرقانونی طورپر مورتی رکھنا ہندو مذہب اور رام جی کی تعلیمات کا حصہ ہے ؟ کیا دن دھاڑے کسی اقلیت کی عبادتگاہ کو منہدم کرنے کی ہندو مذہبی کتابوں میں گنجائش ہے ؟ کیا مسجد توڑکر مندر تعمیر کرنے سے رام جی خوش ہوں گے ؟ کیا انہی تعلیمات پر ہندو مذہب کی بنیاد ہے ؟

ہندو راشٹر ذہنیت کو سمجھنے کے لئے ان کی پیشوا گروگوالکر کا نظریہ مفید ہوسکتا ہے وہ کہتے ہیں ’’تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ خدا کون ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’زندہ خدا ، ہندو قوم ہے ‘‘ اس لئے ان کے مطابق پورا ہندو سماج ہی وہ واحد حقیقت ہے جسے بھکتی کا مرکزی نکتہ ہونا چاہئے ۔ اس سماج کی بھکتی کے راستے میں کوئی اور بھی خیال چاہے وہ ذات ، فرقہ ، زبان ، جماعت کا ہو نہیں آنے دینا چاہئے ‘‘ ۔ اس ہندو سماج کو دیوتا کا نام دیا گیا ۔ اس کو راشٹر دیو بھی کہا گیا ہے مزید کہا گیا ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے اور وہ ہے بھارت ماتا ۔ یعنی ہندو سماج بھارت ماتا ہے ۔ (اقتباس از آر ایس ایس ایک مطالعہ مؤلفہ حارث بشیر ص : ۶۱)

یعنی ہندو سماج کی بھلائی کے لئے عدل و انصاف کا خون کرنا پڑے ، اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو شہید کرنا پڑے اور ان کے نظریہ کے مخالف افراد کو قتل کرنا پڑے تب بھی ان کے نزدیک نہ صرف جائز بلکہ بڑے اجر و ثواب کاباعث ہے ۔ اس انسان دشمن نظریہ کے مقابل میں ظہیرالدین بابر کی اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت چشم کشا ہے ۔ یہ وصیت اسی سال لکھی گئی جس سال بابری مسجد کی تعمیر ہوئی ۔ وہ کہتے ہیں : ’’اے فرزند ! ہندوستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہوئی ہے ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس کی بادشاہی عطا کی ، تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹادو اور ہر مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو ، تم خاص کر گائے کی قربانی کو چھوڑ دو ، اس سے تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرسکو گے ، پھر اس ملک کی رعایا شاہی احسانات سے دبی رہے گی ، جو قوم حکومت کے قوانین کی اطاعت کرتی ہے ، اس کے مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرو ، عدل و انصاف اس طرح کرو بادشاہ رعایا اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے ، اسلام کی ترویج ظلم کی تلوار سے زیادہ احسانات کی تلوار سے ہوسکتی ہے ۔ شیعوں اور سنیوں کے اختلاف کو نظرانداز کرتے رہو ورنہ اسلام میں ان سے کمزوری پیدا ہوتی رہے گی ، مختلف عقائد رکھنے والی رعایا کو اس طرح عناصر اربعہ کے مطابق ملاؤ جس طرح انسانی جسم ملا رہتا ہے تاکہ سلطنت کاڈھانچہ اختلافات سے پاک رہے ۔ (انڈیا ڈیوائڈڈ صفحہ ۳۹ ، تیسرا ایڈیشن بحوالہ بابری مسجد شہادت کے بعد مرتبہ محمد عارف اقبال ص : ۴۳۷۔۴۳۸)
بہرحال سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ انصاف پسند غیرمسلم بھی بے چینی کا شکار ہیں ، ان حالات میں اہل اسلام کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے اہم مسئلہ ہے ۔ اُمید قوی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اس فیصلہ پر نظرثانی کی خواہش ظاہر کریگا اور آخری وقت تک ہرممکنہ کوشش کرنے میں کوئی دریغ نہیں کریگا ۔ وہیں عمومی طوپر اہل اسلام کو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وصیت پر عمل پیرا ہونا چاہئے جوکہ موجودہ وقت میں اور ہر حالت میں ناگزیر ہے ۔ آپ لکھتے ہیں : ’’اﷲ کے بندہ امیرالمؤمنین عمرؓ کا یہ ہدایت نامہ منصور بن غالب کے نام جبکہ امیرالمؤمنین نے ان کو اہل حرب سے اور ان اہل صلح سے جو مقابلہ پر آئیں جنگ کرنے کے لئے بھیجتا ہے ، امیرالمؤمنین نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہرحال میں تقویٰ اختیار کریں کیونکہ اﷲ کا تقویٰ بہترین سامان ، موثر ترین تدبیر اور حقیقی طاقت ہے ۔ امیرالمؤمنین ان کو حکم دیتے ہیںکہ وہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے دشمن سے زیادہ اﷲ کی معصیت سے ڈریں کیونکہ گناہ دشمن کی تدبیروں سے بھی زیادہ انسان کے لئے خطرناک ہے ۔ ہم اپنے دشمن سے جنگ کرتے ہیں اور ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر غالب آ جاتے ہیں ۔ اگر ہم اور وہ دونوں معصیت پر برابر ہوجائیں تو وہ قوت اور تعداد میں ہم سے بڑھکر ثابت ہونگے ، اپنے گناہوں سے زیادہ کسی کی دشمنی سے چوکنا نہ ہوں ، جہاں تک ممکن ہو اپنے گناہوں سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔ (تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول ص ۴۵۔۴۶)