بابری مسجد کے اصل خاطی جنہیں دنیا نہیں جانتی

   

کرشنا جھا
وہ آئیڈیا جس نے ہندوستان کی سیاست کو عملاً تبدیل کردیا تھا ، دراصل تین دوستوں نے پیش کیا اور وہ تینوں دوست تھے مہاراجہ پٹیشوری پرساد سنگھ ( وہ بلرام پور ریاست کے سربراہ تھے) ، مہنت ڈگ وجئے ناتھ اور کے کے کے نائر ۔ تینوں میں ہندو فرقہ وارانہ جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ۔ ساتھ ہی ان تینوں دوست لان ٹینس کے شوقین تھے ۔ ان دوستوں میں سب سے کم عمر مہاراجہ پٹیشوری پرساد تھے ۔ ان کی پیدائش یکم جنوری 1914 ء کو ہوئی اور تربیت ایک ریٹائرڈ برطانوی عہدیدار کرنل ہینسن کی سرپرستی و نگرانی میں ہوئی ۔ اسی انگریز کرنل کے زیر نگرانی مہاراجہ چھوٹے سے بڑے ہوئے ۔ مہاراجہ کی تعلیم مائیو پرنس کالج اجمیر میں ہوئی، انہیں اسی طرح تربیت دی گئی جس طرح اس دور میں دوسرے شاہی خاندان کے بچوں کو دی جاتی تھی ۔ 1935 ء میں مہاراجہ نے تعلیم مکمل کی ، اس دوران وہ ایک ماہر گھوڑ سوار اور لائن ٹینس کے ماہر کھلاڑی بن گئے ۔ لان ٹینس کے نتیجہ میں ہی انڈین سیول سرویس (آئی سی ایس) آفیسر نائر کی مہاراجہ سے بہت گہری دوستی ہوئی ، وہ اگست 1946 ء میں گونڈہ آئے ، اگرچہ نائر مہاراجہ سے سات سال بڑے تھے (ان کی پیدائش 11 ستمبر 1907 ء کو وہ کیرالا کے الپے میں ہوئی تھی) لیکن لان ٹینس کورٹ میں ان لوگوں نے جو دوستی شروع کی جولائی 1947 ء میں گونڈا سے باہر نائر کے تبادلہ کے بعد بھی قائم رہی۔
مہنت ڈگ وجئے ناتھ ایک طویل قامت موٹا ، چوڑے سینے والا ا یک پر وقار شخص تھا اور اس میں معاملہ فہمی کی غیر معمولی صلاحیت تھی ۔ معاملات کو سلجھانے میں بھی وہ مہارت رکھتا تھا ۔ اس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ عمر میں مہاراجہ سے 20 سال جبکہ نائر سے 13 سال بڑا تھا ۔ لان ٹینس کے کورٹ میں بھی دونوں ساتھی اس کا نہ صرف ایک بڑے ہونے بلکہ مذہبی سربراہ ہونے کے ناطے بھی بہت زیادہ احترام کرتے۔
تینوں کی دوستی کا یہ بندھن ہی تھا جو اس وقت پوری طرح دیکھنے میں آیا ، جب 1947 ء کے اوائل میں مہاراجہ نے بلرام پور میں بڑے پیمانے پر جب یگنا کا اہتمام کیا ، مہاراجہ نے نہ صرف مہنت ڈگ وجئے ناتھ کو بلکہ بے شمار ہندوستانیوں بشمول سوامی کرپاتری کو بھی مدعو کیا ۔ کرپاتری ایک سنیاسی تھا جو ڈانڈلوں سے تعلق رکھتا تھا ۔ ڈانڈی دراصل ایک ایسا طبقہ ہے جس کی بنیاد شنکر اچاریہ نے ڈالی تھی۔ انہوں نے قابل لحاظ سیاسی عزائم کا اظہار شروع کیا ، اسی کا نتیجہ تھا کہ سوامی نے 1948 ء میں رام راجیہ پریشد نامی ایک سیاسی جماعت قائم کی ۔ مہاراجہ کے یگنا میں مدہبی رہنماؤں کے ساتھ دیگر مہمانوں میں کے کے کے نائر بھی شامل تھا ۔
1991 ء میں ہندو مہا سبھا کے ترجمان ہفتہ وار ’’ہندو سبھا وارتھا‘‘ میں شائع ایک مضمون میں مہنت ڈگ وجئے ناتھ ، کے کے کے نائر اور سوامی کرپارتی کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات پیش کی گئیں ہیں۔ اس مضمون میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح ان تینوں نے پہلی مرتبہ ایک ایسے مبہم آئیڈیا کو سنجیدگی سے ایک شکل دینا شروع کیا جو ایک مرتبہ حرکت میں آئے گا تو پھر ساری قوم کو ہلاکر رکھ دے گا ۔

یگنا کے آخری دن ڈگ وجئے ناتھ نے ونائک دامودر ساورکر کے اظہار کردہ ان خیالات پر تبادلہ خیال کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بیرونی باشندوںکے زیر قبضہ تمام ہندو مذہبی مقامات کو اب آزاد کروانا ضروری ہے (اس گفتگو میں بابری مسجد کو حاصل کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا) ڈگ وجئے ناتھ نے اس تعلق سے کرپارتی اور نائر کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی۔ بعد میں دونوں نے ڈگ وجئے ناتھ سے وعدہ کیا کہ اس تجویز پر غور کرنے کے بعد وہ اپنے خیالات سے اسے ضرور واقف کروائیں گے ۔ اس کی شناخت کے بعد نائر گونڈا کے ضلعی ہیڈکوارٹر کیلئے روانہ ہوگیا۔ دوسرے دن بلرام پور میں یگنا کے مقام پہنچ کر سیدھے کرپارتی اور مہنت ڈگ وجئے ناتھ کے قریب گیا جنہوں نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے بیٹھنے کیلئے کہا پھر ان لوگوں نے اس موضوع پر دوبارہ تبادلہ خیال شروع کردیا ۔ جب نائر نے تفصیلی منصوبہ کے بارے میں دریافت کیا تب مہنت نے ایودھیا میں سری رام جنم بھومی (بابری مسجد) وارناسی کی کاشی وشواناتھ ٹمپل اور متھرا کی سری کرشنا جنم بھومی مسلمانوں سے دوبارہ حاصل کرنے کی حکمت عملی بتائی۔ اس گفتگو کے دوران ڈگ وجئے ناتھ سے نائر نے وعدہ کیا کہ اس کاز کی تکمیل کیلئے وہ اپنی ہر چیز قربان کردے گا ۔
چنانچہ ڈپٹی کمشنر/ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے کے نائر نے یکم جون 1949 ء کو فیض آباد کا چارج حاصل کیا ۔ اس عمل میں شامل ایک اور ضلعی عہدیدار گرودت سنگھ نائر کا کٹر حامی تھا ، وہ فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز تھا ، اس نے ڈپٹی کمشنر کے مددگار کی حیثیت سے کام کیا ۔ وہ ذات کا راجپوت تھا اور وہ خود کو سادھو تصور کیا کرتا تھا ۔ ہندوازم پر اس کا ایقان تھا ، وہ یہی سمجھتا تھا کہ ہندو ازم اوراس کی اپنی بقاء کو ان ہندوؤں سے خطرہ لاحق تھا جن کی کانگریس پر اجارہ داری تھی ، کانگریس میں جن کو برتری حاصل تھی ۔ وہ کانگریس کی ہندوستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کے عزم سے متنفر تھا ۔ وہ اس بات کو لے کر پریشان تھا کہ کانگریس ہندوستانی معاشرہ کو سیکولر بنانے کا عزم رکھتی ہے۔

بعد میں فیض آباد میں ان لوگوںکی تعیناتی سرکاری ملازمت میں ان کے آخری سال ثابت ہوئے ۔ وہ ان ہندو انتہا پسند رہنماؤں میں شمار کئے جانے لگے جنہوں نے 22 ڈسمبر 1949 ء کو بابری مسجد میں مورتی رکھ دی ۔ اس معاملہ میں دونوں ماخوذ کئے گئے ۔ اس معاملہ کی جو سرکاری تحقیقات ہوئی ، اس میں بتایا گیا کہ نائر اور گرودت سنگھ نے جس طرح کا بابری مسجد میں مورتی بٹھانے میں صریح کردار ادا کیا ہے ، ایسے میں ان دونوں کو سرکاری خدمات سے سبکدوش کروانا ضروری ہے۔ اس کے بعد کے کے کے نائر کو اس کے اسسٹنٹ گرودت سنگھ کے ساتھ سبکدوش ہونے کیلئے مجبور کیا گیا۔ بابری مسجد میں مورتی بٹھانے سے قبل ان لوگوں نے انتظامی بغاوت کے ذریعہ چبوترہ پر ایک رام مندر نصب کرنے کا مشن شروع کیا ۔ ان کا منصوبہ تھا کہ 6 دہوں سے جوں کے توں موقف سے متعلق حکم کو بدلا جائے اور اس کیلئے مندر کی تعمیر کیلئے ریاستی حکومت سے اجازت لی جائے ۔ دونوں نے سمجھا کہ ایسا کرنے سے ’’بابری مسجد کو عملاً مندر کی تعمیر کیلئے گھیرلیں گے۔
اس کیلئے انہوں نے سب سے پہلے یہ کہا کہ لکھنو میں موجود ریاستی حکومت کے عہدیداروں سے چبوترہ پر مندر تعمیر کرنے کی درخواست کی ۔ اس درخواست کے جواب میں متحدہ ریاستوں کی حکومت کے نائب معتمد کیسہار سنگھ نے 20 جولائی 1949 ء کو نائر کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں اس معاملہ میں جلد سے جلد اپنی سفارشات اور اس کے حق میں ایک رپورٹ روانہ کرنے کی خواہش کی ۔ مکتوب میں مزید کہا گیا کہ وہ برائے مہربانی رپورٹ میں یہ بھی حوالہ دیا جائے کہ آیا جس زمین پر مندر تعمیر کرنے کی تجویز ہے وہ سرکاری / بلدی اراضی ہے اور یہ رپورٹ کمشنر لکھنو ڈیویژن کے ذریعہ حکومت کو بھیجی جانی چاہئے ۔

ریاستی حکومت سے مکتوب کی وصولی کے بعد نائر نے اپنے اسسٹنٹ گرودت سنگھ سے بابری مسجد کے مقام کا دورہ کر کے ایک رپورٹ اسے روانہ کرنے کیلئے کہا۔ 10 اکتوبر 1949 ء کو روانہ کردہ رپورٹ میں گرودت سنگھ نے اس مقام پر ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنے کی سفارش کی۔ یہ رپورٹ جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کرنے والے چبوترہ پر ایک نوپاتھ شروع کرنے ہنوماناگڑھی میں فیصلہ لینے کے 18 دنوں بعد پیش کی گئی ۔
اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آپ کے حکم کے مطابق میں مقام کا دورہ کرتے ہوئے تفصیلی معائنہ کیا اور تفصیلی معلومات حاصل کی ۔ مسجد اور مندر ایک دوسرے کے بازو ہیں اور ہندو اور مسلمان اپنے مذہبی فرائض و رسومات ادا کر رہے ہیں۔ ہندو عوام نے اس درخواست میں استدعا کی ہے کہ موجودہ چھوٹی سی مندر کی بجائے ایک خوبصورت امور بڑی مندر تعمیر کی جائے ۔ ایسے میں وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس لئے بھی اجازت دی جاسکتی ہے کہ ہندو آبادی اس مقام پر ایک عالیشان مندر تعمیر کرنے کی خواہاں ہے جہاں بھگوان رام جی کی پیدائش ہوئی تھی جس مقام پر مندر تعمیر کی جائے گی وہ ایک سرکاری اراضی ہے۔