بات کرتا ہے جب بھی کرتا ہے دل آزاری کی

   

سونیا گاندھی سے سنگھ پریوار خوف زدہ
مہاراشٹرا میں نفرت کے سوداگروں کو شکست

رشیدالدین
ملک میں کوئی وباء ہو یا پھر کوئی تباہی جارحانہ فرقہ پرست عناصر سماج میں نفرت پھیلانے کا کوئی راستہ ضرور تلاش کرلیتے ہیں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ انسانیت اپنی بقاء کی جدوجہد کر رہی ہے۔ نفرت کے سوداگروں کو کورونا پہلے مسلمان دکھائی دیا اورملک میں کورونا پھیلاؤ کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مسلمانوں کو طالبانی اور کورونا جہاد جیسے القاب سے نوازا گیا۔ کورونا کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کے دوران میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف منظم مہم چلائی گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں بالخصوص ٹھیلہ بنڈی پر کاروبار کرنے والوں کو نام پوچھ کر نشانہ بنایا گیا ۔ مسلم تاجرین کا بائیکاٹ اور مسلمانوں کو اناج فروخت کرنے سے انکار کے معاملات منظر عام پر آئے۔ بعض ریاستوں میں سماجی بائیکاٹ کی بھی کوشش کی گئی ۔ ان تمام کوششوں کے باوجود کورونا نے اسلام کو اختیار نہیں کیا اور دیگر مذاہب میں بھی وائرس کے اثرات منظر عام پر آئے تو گودی میڈیا اور سنگھ پریوار کو مایوسی ہوگئی۔ نفرت کے سوداگر اپنی عادت سے باز آنے والے کہاں تھے۔ مہاراشٹرا کے پال گھر ضلع میں ہجومی تشدد کے ایک واقعہ کو لے کر ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے اور فساد برپا کرنے کی سازش کی گئی۔ اس معاملہ میں بھی سنگھ پریوار اور اس کے بکاؤ میڈیا کے منہ کو کالک لگ گئی۔ کورونا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کی مذمت میں جب دنیا بھر سے بالخصوص خلیجی ممالک کے شاہی گھرانے ، تنظیم اسلامی کانفرنس اور عرب دانشور میدان میں آگئے تو مودی حکومت کو دفاعی موقف اختیار کرنا پڑا اور گودی میڈیا کی بولتی بند ہوگئی ۔ نریندر مودی نے ٹوئیٹ کیا کہ کورونا کسی مذہب ، علاقہ اور زبان میں تفریق نہیں کرتا۔ مودی اس وقت تو خاموش رہے جب نظام الدین تبلیغی مرکز کے خلاف بی جے پی اور سنگھی زہر پھیلا رہے تھے اور مودی کا بھونپوں میڈیا کے اینکرس گلا پھاڑ کر تبلیغی جماعت کو طالبان سے جوڑ رہے تھے اور ملک میں کورونا جہاد کا الزام لگا رہے تھے۔ خلیجی ممالک میں ہندوستان کے خلاف بڑھتی ناراضگی سے حکومت کے ہوش ٹھکانے آگئے اور خلیج میں موجود لاکھوں غیر مسلموں کا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا۔ پھر کیا تھا بکاؤ اینکرس کی آواز دب گئی اور مودی کو ٹوئیٹ کرنا پڑا۔ مودی کا یہ ٹوئیٹ نظام الدین مرکز واقعہ کے فوری بعد آنا چاہئے تھا ۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ ہندوستان اقلیتوں کے لئے جنت ہے ۔ نقوی اس وقت کہاں تھے جب جنت نشاں ہندوستان کو گزشتہ 6 برسوں میں جہنم بنادیا گیا ۔ الغرض 16 اپریل کو مہاراشٹرا کے پال گھر ضلع میں چوری کے شبہ میں دو سادھوؤں اور ان کے ڈرائیوروں کو ہجوم نے ہلاک کردیا جس پر فرقہ وارانہ سیاست گرم ہوگئی۔ اقلیتوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے پر خاموش رہنے والے امیت شاہ بے چین ہوگئے ۔ پرائم ٹائم ٹی وی شو میں اینکرس بھونکنے لگے ۔ عام طور پر ہندو کی ہلاکت کی صورت میں شبہ کی سوئی مسلمانوں کی طرف گھمادی جاتی ہے ۔ یہاں تو دو سادھوؤں کا معاملہ تھا ، لہذا مسلمانوں پر شبہ کرنا فطری تھا۔ ایک چیخ پکار اینکر جو پرائم ٹائم میں عدالت کی طرح فیصلے صادر کرتا ہے، اس کی ہندو توا نبض پھڑک اٹھی اور ملک کے باوقار ادارے ایڈیٹر گلڈ سے استعفیٰ کا لائیو شو کے دوران اعلان کردیا۔

راج دیپ سر دیسائی نے اینکر کے استعفیٰ پر بہترین طنز کیا اور کہا کہ ’’ایک ایڈیٹر جو گلڈ سے مستعفی ہوگئے، وہ 12 سال کسی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ جرنلسٹوں پر حملے ہوئے ، ہلاک کیا گیا ، تب بھی وہ کچھ نہیں بولے۔ صحافتی آزادی کے بارے میں یہ ہے ان کا عہد‘‘۔ مہاراشٹرا کے پالی گھر واقعہ کی آڑ میں امن خراب کرنے کے منصوبوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب سادھوؤں کی ہلاکت کے ذمہ داروں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔ وزیر داخلہ مہاراشٹرا نے 101 گرفتار شدگان کی فہرست جاری کردی جس میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مہاراشٹرا حکومت نے نفرت پھیلانے کا ہتھیار بی جے پی اور سنگھ پریوار سے چھین لیا ہے ۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست ہوگئی۔ سنگھ پریوار مہاراشٹرا کی شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس مخلوط حکومت کی تاک میں ہے تاکہ موقع ملتے ہی زوال سے دوچار کیا جائے۔ پال گھر میں ہجومی تشدد میں تین ہلاکتوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ قتل کے ذمہ داروں کے ساتھ تماش بین پولیس والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کے یہ چمپین اس وقت کہاں تھے جب 28 ستمبر 2015 ء کو اترپردیش کے دادری میں محمد اخلاق کو بیف کے شبہ میں ہجوم نے ہلاک کردیا۔ اخلاق کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور 113 افراد موت کی نیند سلادیئے گئے جن کی اکثریت کا تعلق مسلم اقلیت سے ہے۔ اس وقت ٹی وی شوز میں ہلاکتوں کی مذمت کے بجائے بیف کھانے یا ساتھ رکھنے کا الزام مرنے والوں پر عائد کیا گیا ۔ دوسروں کا خون ، خون ہے اور مسلمان کا خون پانی ہے۔ اخلاق سے لے کر 113 دیگر مہلوکین کے پسماندگان کو آج تک انصاف کا انتظار ہے۔

ملک میں کانگریس کا موقف اگرچہ کمزور ہے لیکن سنگھ پریوار آج بھی سونیا گاندھی سے خوفزدہ ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی بہانے سونیا گاندھی کو بیرونی شہریت کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹرا میں ہجومی تشدد پر لائیو شو کے دوران ارنب گوسوامی نے سونیا گاندھی کے خلاف تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔ اپنی زبان سے گندگی اگلنے کے لئے مشہور ارنب گوسوامی کے بیک گراؤنڈ سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ان کے والد 1998 ء میں بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے مقابلہ کرچکے ہیں۔ ان کے قریبی رشتہ دار بی جے پی میں اہم عہدوں پر ہیں اور وہ جس چیانل کے ایڈیٹر ہیں، اس کے مالک بی جے پی کے ایک ایم پی بتائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چیانل کی پالیسی کانگریس اور گاندھی خاندان کو نشانہ بنانا ہے ۔ ارنب گوسوامی نے اٹلی کا حوالہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان میں سادھوؤں کی ہلاکت پر اٹلی کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے ستائش حاصل کریں گی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ترجمان اس اینکر نے سادھوؤں کی ہلاکت پر خاموشی اور مسلمانوں و عیسائیوں پر حملوں کی صورت میں احتجاج کا الزام عائد کیا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار دراصل ارنب گوسوامی کو کانگریس کے خلاف زہر اگلنے اور عوام میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے خرید رکھا ہے۔ وہ گاندھی خاندان کی قربانیوں سے کہاں واقف ہیں۔ جدوجہد آزادی میں موتی لال نہرو اور آزادی کے بعد جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہرلال نہرو۔ ملک کو نیوکلیئر طاقت بنانے والی اندرا گاندھی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا انقلاب لانے والے راجیو گاندھی یہ تمام ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی۔ بی جے پی و سنگھ پریوار کا کوئی خاندان اس طرح کی قربانیوں کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ جہاں تک سونیا گاندھی کا سوال ہے، وہ مجسم قربانی کی علامت ہیں۔ 2004 ء میں جب کانگریس اور حلیف جماعتوں نے وزیراعظم کے عہدہ کا پیشکش کیا تو انہوں نے عہدہ کی پرواہ کئے بغیر ڈاکٹر منموہن سنگھ کو آگے کردیا۔ اگر انہیں دلچسپی ہوتی تو وزیراعظم بننے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی۔ ملک کے لئے قربانی دینے والی اس خاتون سے سنگھ پریوار آخر خوفزدہ کیوں ہے۔ ظاہر ہے کہ کمزور ہونے کے باوجود صرف کانگریس پارٹی ہی بی جے پی کا متبادل ہوسکتی ہے ۔ وقت کا پہیہ پھرتا ضرور ہے اور وہ دن دور نہیں جب عوام بی جے پی سے ناراض ہوکر کانگریس کا دامن تھام لیں گے اور کانگریس پارٹی ملک کی قیادت کرے گی ۔ اپنی ساس اور شوہر کی قربانی کے بعد ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہوئے بیٹے اور بیٹی کو عوامی خدمت میں جھونک دینے والی سونیا گاندھی کے خلاف ریمارکس کرنا دراصل احسان فراموشی ہے۔ سونیا کے ساتھ جب اٹلی کا ذکر کیا جاتا ہے تو پھر اڈوانی کے ساتھ سندھ کا ذکر کیوں نہیں جو پاکستان کا حصہ ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہم قومی ترانہ میں سندھ کا تذکرہ احترام سے کرتے ہیں جبکہ یہ غیر ملکی علاقہ ہے۔ مرکز اور مختلف ریاستوں میں سیاسی غلبہ کے باوجود سنگھ پریوار کو سونیا گاندھی کا وجود خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ سونیا کے علاوہ راہول گاند ھی اور پرینکا گاندھی پر نفسیاتی خوف طاری کرنے کیلئے گودی میڈیا کے ذریعہ اخلاق سوز مہم چلائی جارہی ہے۔ سنگھ پریوار کے حاشیہ بردار کچھ بھی کہہ لیں لیکن ہندوستانیوں کے دلوں میں گاندھی خاندان کی عظمت اور محبت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
بات کرتا ہے جب بھی کرتا ہے دل آزاری کی
کوئی تو دوا ہوگی تری اس بیماری کی