باحجاب طالبات پر حملے سنگھ پریوار کے تعصب و تنگ نظری کا ثبوت

   

اپورو آنند
’’میں تمام طلبہ، اساتذہ اور اسکول و کالجس کے انتظامیہ ،ساتھ ہی کرناٹک کے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن و ہم آہنگی برقرار رکھیں۔ میں نے آئندہ تین دنوں کیلئے ریاست میں ہائی اسکولس اور کالجس بند رکھنے حکم دیا ہے اور امید کرتا ہوں بلکہ درخواست کرتا ہوں کہ تمام اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کریں گے۔ ‘‘
یہ چیف منسٹر کرناٹک مسٹر بومائی کے الفاظ ہیں۔ رپورٹس کے مطابق کرناٹک ہائیکورٹ نے طلبہ برادری اور عوام سے بطور خاص درخواست کی کہ عدالت میں حجاب سے متعلق مقدمہ کی سماعت ہورہی ہے، ایسے میں ریاست میں امن و امان برقرار رکھا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست میں ہم آہنگی کو نقصان کون پہنچا رہا ہے؟ کون امن و امان میں خلل پیدا کررہا ہے؟ تشدد کو حجاب ۔ زعفرانی اسکارف کے درمیان ٹکراؤ کیوں قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اہم سیاست داں اور دانشور بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کررہے ہیں۔ آخر کیوں؟ آخر لوگ اس بات پر تنقید کیوں کررہے ہیں کہ حجاب اور زعفرانی اسکارف تنازعہ میں دونوں طرف کے طلبہ کا نقصان ہورہا ہے۔ ریاست میں جو کچھ ہورہا ہے، ہمیں اس بارے میں بالکل واضح ہونا چاہئے یعنی اپنا موقف بالکل واضح رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہ نہ حجاب تنازعہ ہے اور نہ ہی حجاب اور زعفرانی اسکارف کے درمیان لڑائی جیسا کہ بعض لوگ ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مسابقتی فرقہ واریت ہے۔ کچھ عناصر یہی چاہتے ہیں کہ وہ شہریوں کو یہ یقین دلائیںکہ حقیقت میں یہ مسابقتی فرقہ واریت ہے۔ کرناٹک کے کالج میں ایک برقعہ پوش نوجوان لڑکی وہ بھی تنہا لڑکی کا زعفرانی اسکارف پہنے غنڈے پیچھا کررہے ہیں اور ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس دوران ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ تنہا لڑکی ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے سے اُن غنڈوں کا جواب دے رہی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک سینئر صحافی بھی پریشان ہوگیا اور وہ حیرت کے مارے سوچنے لگا کہ کہیں یہ کارروائی کرناٹک سے بہت دور اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں جہاں انتخابی عمل جاری ہے، وہاں رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کیلئے تو نہیں کی گئی ۔ بہرحال جس مسلم طالبہ کو زعفرانی اسکارف اپنے گلے میں ڈالے غنڈوں نے ستایا اور وہ ایک طرح سے ان غنڈوں کے حملے کا نشانہ بنی، اِس وقت رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے سے متعلق فرقہ پرستوں کے عزائم کی ایک سرگرم فریق بن گئی ہے، لیکن ان حالات پر پریشان صحافی اور دیگر لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مسکان نامی لڑکی نے خود پر حملے کیلئے یہ تاریخ، یہ مہینہ یا یہ سیزن منتخب یا پسند نہیں کیا بلکہ حجاب کرنے کے باعث اسے نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حجاب اس کے لباس کا ایک حصہ ہے۔ یہ بھی بات یاد رکھنے کی ہے کہ اڈوپی کے اس کالج میں پڑھنے والے نوجوان مسلم طالبات نے مذہبی خطوط پر رائے دہندوں کو تقسیم کرنے کا کھیل شروع کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ جس وقت انہیں کلاسیس میں حجاب پہن کر داخل ہونے سے روکا گیا، وہ تو اپنی تعلیم پر توجہ دی ہوئی تھیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں حجاب کے باعث کالج میں داخل ہونے سے روکے گا لیکن اچانک کالج کے حکام نے یہ فیصلہ کرلیا کہ حجاب ان کی ادارہ جاتی پالیسی کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ کالج میں ذمہ دار حکام نے واضح کردیا کہ طلبہ کو یونیفارم زیب تن کرنا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو اڈوپی کا کالج ہو یا پھر کونڈا پورہ یا کرناٹک کے دیگر علاقوں میں واقع کالجس کا معاملہ ہو، ان کالجس میں پڑھنے والی طالبات بطور احتجاج حجاب نہیں پہنتی بلکہ ان کے لباس اور ان کی تہذیب کا ایک حصہ ہے جبکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان مسلم لڑکیوں کے مذہب میں حجاب کا حکم دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں غیرمسلم یا بطور خاص ہندو اکثر باحجاب اور برقعہ پوش خواتین کو دیکھا کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس پریکٹس کے بارے میں ان کے اپنے خیالات بھی ہوں گے لیکن کبھی بھی ان لوگوں نے حجاب یا برقعے کے معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ کبھی بھی برقعے نے امن و امان کو متاثر نہیں کیا یا اس میں خلل پیدا نہیں کیا۔ بعض لوگ اسے دقیانوسی سمجھ سکتے ہیں ، بعض پسماندہ قرار دے سکتے ہیں، بعض لوگ رجعت پسندی کی اسے علامت کا نام دے سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ایک ظلم یا دباؤ ڈالنے کی طرح ہوسکتا ہے لیکن کسی کو اس خاتون کی فکر نہیں جو حجاب کرتی ہے۔ اس کے حجاب کے بجائے عوام کو اور خاص طور پر سیاست دانوں کو حجاب پہننے والی خواتین کی بھلائی اور ان کی ترقی کے بارے میں سوچنا چاہئے۔