بالاسور ٹرین حادثہ انسانی غلطی کا نتیجہ

   

پی چدمبرم ،سابق مرکزی وزیر داخلہ

جمعہ 2 جون سے ملک بھر میں جو مسئلہ چھایا رہا جس پر سب سے زیادہ چرچہ کی گئی بحث و مباحث ہوئے یا جو مسئلہ موضوع بحث بنا وہ بالاسور اوڈیشہ میں پیش آیا المناک ریل حادثہ رہا۔ (اس حادثہ میں دو ٹرینوں اور ایک ٹھہری ہوئی مال گاڑی شامل رہے) اس المناک و دردناک واقعہ کی اب تک جو تحقیقات کی گئیں ہیں ان میں ایک ہی نتیجہ پر پہنچا گیا اور وہ یہ رہا کہ حادثہ انسانی غلطی کا نتیجہ تھا اور انسانی غلطیوں کے نتیجہ میں کبھی بھی واقع ہوسکتا تھا لیکن حکومت نے اچانک یہ کہتے ہوئے مذکورہ ٹرین حادثہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے کہ اس المیہ کے پیچھے شرپسند عناصر کا ہاتھ ہوسکتا ہے اور یہ فتنہ پروازوں کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اگر اس واقعہ کے پیچھے شرپسندوں اور فتنہ پرواز ہیں تو وہ ایک یا تنہا نہیں ہوسکتا اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں شرپسندی اور فتنہ پروازی کا معنی و مطلب ضرر، نقصان، جذبات کا مجروح ہونا بھی ہے اگر آپ اور ہم گزشتہ 9 برسوں کے دوران ہمارے ملک کے حالات اور ملک میں پیش آئے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے ناقص انتظامات کی ایک طویل فہرست ہے اور ان ہی ناقص انتظامات، پالیسیوں و پروگرامس کے نتیجہ میں ہی یہ ٹرین حادثہ پیش آیا جس میں 275 مسافرین کی جانیں گئیں۔ نتیجہ میں ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔
کمزور ترجیحات : ۔ 1 ۔ اگر دیکھا جائے تو انڈین ریلویز (آئی آر) یومیہ اوسطاً 2.2 کروڑ مسافرین کو اپنی منزل مقصود پر پہنچاتی ہے اور خاص طور پر غریب و متوسط ہندوستانی ٹرینوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سفر کے دوسرے ذرائعوں کی بہ نسبت ریل کا سفر سستا ہوتا ہے۔ اس سفر میں مسافرین کو سبسیڈی دی جاتی ہے۔ اگرچہ مسافرین کو سبسیڈی دی جاتی ہے لیکن ریلوے کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ دولت مندوں کے حق میں رہتی ہے اور جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے جس کا نتیجہ پٹریوں کی دیکھ بھال اور تجدید پر نئی ٹرینوں کو ترجیح دیئے جانے کی شکل میں نکلا ہے۔ جہاں تک نئی ٹرینوں کا سوال ہے وندے بھارت اور تیجا جیسی ٹرینیں متعارف کروائی گئیں۔ حالانکہ ان ٹرینوں کو متعارف کروانے کی بجائے یا ان پر کثیر مصارف کرنے کی بجائے وزارت ریلوے مسافرین کو بے شمار سہولتیں اور خاص کر ان کی سیفٹی کے اقدامات کرسکتی تھی۔ حکومت نے ٹریک مینٹیننس پر نئی ٹرینوں کو ترجیح دی، وندے بھارت اور تیجا جیسی ٹرینوں کو کیاپٹل اکسینڈیچرپر ترجیح دی گئی۔ اسی طرح سکنلنگ اور مواصلات پر دوسری چیزوں کو ترجیح دی گئی۔ دوسری جانب بلٹ ٹرین جیسی ٹرینوں کو ریلوے میں منظورہ بڑی تعداد میں مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی پر ترجیح دی گئی۔ اسی طرح حکومت اور ریلوے نے سیفٹی پر رفتار (اسپیڈ) کو ترجیح دی۔
2۔ سال 2020-21 میں جملہ سرمائے مصارف 1,39,245 کروڑ روپیوں میں سے پٹریوں کی تجدید پر 8.6 فیصد رقم خرچ کی گئی اور سگلنگ و مواصلات پر جملہ سرمائے مصارف کا 1.4 فیصد حصہ خرچ کیاگیا جس میں سیفٹی کے شعبہ پر بہت کم توجہ دی گئی، یعنی اسے کم ترجیح دی گئی۔ ان کے لئے بجٹ برائے سال 2023-24 میں 7.2 اور 1.7 فیصد کا تخمینہ رکھا گیا تھا۔
-3 قدیم یا پرانے اثاثہ جات کی تبدیلی و تجدید کے لئے انڈین ریلوے کے پاس ڈی آر ایف (Depreciation Reserve fund) ہے۔ 31 مارچ 2021 کو مذکورہ فنڈ میں صرف 585 کروڑ روپے کا بیالنس تھا۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کا اس بارے میں کہنا تھا کہ درکار حقیقی رقم کی بہ نسبت یہ رقم ناکافی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تبدیل کئے جانے والے اثاثوں کی مالیت 2020-21 کے اواخر تک 94,873 کروڑ روپے تک بڑھ گئی تھی جس میں سے 58,459 کروڑ روپے پٹریوں کی تجدید کے لئے تھے۔ سگنلنگ اور مواصطلاتی کاموں میں 1801 کروڑ روپے کا بیاک لاگ تھا ( کمپٹرولر اینڈ اڈیٹر جنرل کی رپورٹ نمبر 23، ڈسمبر 2022)۔
TRCS کی عدم تعیناتی پٹریوں کی تنقیح متاثر ہونے کا باعث بنی جہاں تک ٹرینوں کے پٹریوں سے اثر جانے کے واقعات کا سوال ہے یہ ناقص منصوبہ بندی، برسوں سے ایک ہی مقام پر ٹریک مشینوں کے رکھے جانے، افرادی قوت میں عدم بھرتیوں اور مستقل وے اسٹاف میں تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔-6 سگنل اور مواصلاتی شعبہ میں جو سب سے بڑی خاص بات ہے وہ سسٹم ؍ ٹکنیکی نقائص ہیں اکثر خطرناک حادثات تصادم اورSPAD (Signal passing at Danger) کے نتیجہ میں پیش آتے ہیں۔
-7 ریلویز میں خطرناک حادثات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اس کی مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیوں سے حکومت کا گریز ہے۔ دی پرنٹ نے پرنسپال چیف آپریشن مینجر ساوتھ ویسٹ ریلوے کے ایک مکتوب کے حوالے سے بتایا کہ ریلوے میں gangmen کی قلت ہے۔ اسٹیشن ماسٹرس 12 گھنٹوں سے زائد کام کرتے ہیں۔ گروپ سی کی14,75,623 جائیدادوں میں 3,11,000 جائیدادیں اور 18881 گزیٹیڈ کیڈر کے عہدوں میں سے 3018 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ ہمارے ملک کے وزیر ریلوے مسٹر اشونی وشنو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر ریلوے کی حیثیت سے صرف ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں اور اس کام پر وہ 3 جون 2023 سے مصروف ہیں۔ خیر دیر آئد درست آئد۔ انہوں نے 7 جولائی 2021 میں حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ وہ وزیر الیکٹرانکس و آئی ٹی ہیں۔ (یقینا وہ اس وزارت سے محظوظ ہوئے ہوں گے) وہ وزیر مواصلات بھی ہیں (جسے وہ ہوسکتا ہے کہ فراموش کئے ہوں) اور وزیر ریلوے بھی ہیں اور بحیثیت وزیر ریلوے 3 جون 2023 سے ان کے حقیقی کام کا آغاز ہوا ہے۔