بجاج اسکوٹر پر پھرنے والا اَڈانیاب ہندوستان کا دولت مند ترین شخص

   

’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی رپورٹ
برسوں سے مشرقی ہندوستان میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والا ایک بہت بڑے پاور پلانٹ کو وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکا حالانکہ فصلوں اور کھجور کے باغات کوئلہ جیسے ایندھن سے پیدا ہونے والی دھویں اور فضائی آلودگی کی زد میں آتے رہے اور آتے رہیں گے لیکن اس پلانٹ اور اس سے خارج ہونے والی آلودگی کو کوئی چیز نہیں روک سکی۔ مقامی کسانوں نے اعتراض کیا اور نہ ہی ماحولیات کے اثرات کا جائزہ لینے والے بورڈس نے اس پر انگلی اُٹھانے کی جرأت کی۔ یہاں تک کہ سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنی زبانیں، آنکھیں اور کان بند رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ دوسری طرف ہندوستان کے وہ لیڈران نے بھی خاموشی اختیار کی جنہوں نے قابل تجدید توانائی کو اختیار کرنے کا عہد کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پراجیکٹ صرف چند ہندوستانیوں کیلئے فائدہ بخش ثابت ہوگا۔ آئندہ ہفتہ اس پلانٹ کے آن لائن آنے کی پوری پوری توقع ہے اور اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی الیکٹریسٹی یا بجلی پریمیم قیمتوں پر پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو فروخت کی جائے گی۔ جہاں تک بنگلہ دیش کا سوال ہے، یہ ایک قرض کے دلدل میں پھنسا ملک ہے اور اس ملک میں بجلی گنجائش سے زیادہ ہے اور اسے مزید بجلی کی ضرورت نہیں۔ یہ حقائق دستاویزات میں ظاہر کئے گئے ہیں۔ اگرچہ اس پاور پلانٹ سے عوام کا فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کرۂ ارض میں ماحولیاتی حدت کا باعث بننے والی جو کاربن خارج ہوتی ہے، اس میں 1/5 حصہ کاربن کا اخراج صرف اور صرف کوئلہ کے استعمال کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ہندوستان ایک ابھرتی معیشت ہے۔ وہ کوئلہ کے استعمال کے معاملے میں دنیا بھر میں دوسرا مقام رکھتا ہے اور کاربن کے اخراج میں عالمی سطح پر ہندوستان تیسرے مقام پر ہے۔ ہندوستانی حکام یہی کہتے ہیں کہ ملک میں کوئلہ کا استعمال ایک ضرورت ہے جبکہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کوئلہ کا استعمال کرے۔ اگر ہم 2021ء کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں (ان اعداد و شمار کے ذرائع میں یو ایس انرجی انفارمیشن اڈمنسٹریشن، چین کی قومی بیورو برائے اعداد و شمار، ہندوستانی وزارت کوئلہ اور انڈونیشیا کی وزارت توانائی و معدنیات شامل ہیں)ان اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ کوئلہ کی پیداوار کے معاملے میں چین 4070 ملین ٹن کوئلہ کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر نمبر ون پوزیشن پر رہا۔ ہندوستان 725.43 ملین ٹن کوئلہ کی پیداوار کے ساتھ دوسرے، انڈونیشیا، 614 ملین ٹن کے ساتھ تیسرے اور امریکہ 577 ملین ٹن کوئلہ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ 60 سالہ اڈانی نے ستمبر میں سنگاپور میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ناقدین ہم سے یہی چاہیں گے کہ تمام Fossil Fuel کے وسائل سے فوری چھٹکارہ حاصل کرلیں لیکن ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے اور ہندوستان فوری طور پر کوئلہ کے استعمال سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور یہ عالمی پالیسی ہندوستان کیلئے کام نہیں کرے گی، لیکن جھارکھنڈ گوڈا میں اڈانی کا پاور پلانٹ اس بات کی روشن مثال ہے کہ ہندوستان میں سیاسی عزائم کسی طرح کاربن کے اخراج کا باعث بننے والے Dirty Fuel اور ملک میں کوئلہ کی صنعت پر اپنی اجارہ داری رکھنے والے صنعت کاروں کی طرف داری کرتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران 24 سے زائد موجودہ اور سابق ہندوستانی عہدیداروں اڈانی گروپ میں خدمات انجام دے چکی شخصیتوں، اسی صنعت سے وابستہ ایگزیکٹیو اور ماہرین کے انٹرویو لئے گئے۔کمپنی اور حکومتی دستاویزات بشمول بجلی کی فروخت سے متعلق رازدارانہ معاہدات کا جائزہ لیا گیا جس سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ کیسے ہندوستانی عہدیداروں نے بار بار ایک ایسے پراجیکٹس کو اہمیت دی جو ایسا لگتا ہے کہ معیشت پر کچھ زیادہ اثرانداز نہ ہوسکا۔ اس سے ایک ایسے ارب پتی کے اثر انداز ہونے کا بھی پتہ چلا جو ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ترقی کے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ آپ کو بتادیں کہ سال 2015ء میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے سرکاری دورہ کے دوران گوڈڈا پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایک سینئر عہدیدار نے جب خصوصی رعایتی قیمتوں پر چنندہ صنعت کاروں بشمول اڈانی کو کوئلہ سربراہ کرنے کی مخالفت کی تب مودی انتظامیہ نے اسے اس عہدہ سے ہٹا دیا اور جب ایک مقامی قانون ساز نے اس پاور اسٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تو اسے 6 ماہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ عہدیداروں کے بیانات اور دستاویزات کے مطابق کم از کم تین مرحلوں پر حکومت نے اڈانی کے کوئلہ سے متعلق کاروبار میں مدد کیلئے قوانین پر نظرثانی کی اور کم از کم ایک ارب ڈالرس بچانے میں اڈوانی کی مدد کی، یہ ایسے وقت کیا گیا جب خود مودی نے اقوام متحدہ کو بتایا تھا کہ وہ کوئلہ پر محاصل عائد کریں گے اور قابل تجدید توانائی پر انحصار کو بڑھائیں گے۔ ہندوستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی کے استعمال کو عام کرنے کیلئے اقدامات کریں گے اور اسے اپنی ترجیحات میں اولین ترجیح دیں گے اور انہیں اُمید ہے کہ قابل تجدید توانائی کے ذریعہ 2030ء تک ہندوستان کی بجلی طلب کا نصف حصہ قابل تجدید توانائی سے پورا کریں گے اور ہندوستان نے 2070ء تک کاربن کے صفر اخراج کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی اڈانی گروپ کی 60% سے زائد آمدنی کوئلہ سے جڑے کاروبار سے حاصل ہوئی۔ اڈانی کی سات تجارتی کمپنیوں کی سہ ماہی رپورٹس اور صنعت کے ماہرین سے اس بات کا پتہ چلا۔ ان کاروباروں میں 4 کوئلہ پر مبنی پاور پلانٹس 18 کوئلہ کی کانیں اور کوئلہ ٹریڈنگ آپریشنس ہندوستان کو ایک چوتھائی درآمد کیلئے ذمہ دار ہے اور ہندوستان میں 75% بجلی کی پیداوار کا کوئلہ پر انحصار ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 3 برسوں میں اڈانی کی آمدنی میں دگنے سے زیادہ اضافہ ہوا۔ غرض کوئلہ کی سربراہی کوئلہ سے بجلی کی پیداوار ریل اور ہائی وولٹیج لائن جہاز رانی بندر گاہوں کے شعبوں میں صرف اور صرف اڈانی کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔ اڈانی کے دو سابق دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ کپڑے کے ایک متوسط تاجر کا بیٹا تھا اور اپنے ابتدائی دنوں میں اسے بہت زیادہ کامیابی نہیں ملی اور وہ ایک بجاج اسکوٹر پر مغربی ریاست گجرات میں پھرا کرتا تھا۔ بعد میں اس نے پلاسٹک فلمس اور پیالپٹس کی تجارت کیلئے مشرقی ایشیا کا رخ کیا۔ اڈانی کے عروج کا آغاز 1991ء میں ہوا جب وہ منی سوٹا کی کارگل کمپنی کیلئے درمیانی آدمی یا دلال کا کردار ادا کررہے تھے۔ مذکورہ کمیٹی مندرا میں نمک کی کانوں کو فروغ دے رہی تھی، لیکن جب معاملت ناکام ہوئی تب اڈانی کو 2,000 ایکڑ پر سفید صحرا کی شکل میں ایک موقع مل گیا۔ بی جے پی لیڈروں اور سیاست دانوں کے مطابق صنعت کاروں کی زندگیوں میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن اڈانی کا معاملہ کچھ اور ہے، اس نے ہر سیاسی جماعت کے قائدین سے تعلقات بنائے رکھے، نتیجہ میں اسے عروج ہی عروج حاصل ہوا اور 1990ء میں اس نے گجرات میں بی جے پی کے ریاستی سیکریٹری نریندر مودی سے تعلقات بڑھائے جو 2001ء ریاست کے چیف منسٹر بنے۔ 2007ء میں گجرات حکومت نے 140 مربع میل زمین معمولی قیمت پر اُسے فروخت کردی اور 2009ء میں اڈانی نے مندرا SEZ میں ایک پاور اسٹیشن کی تعمیر شروع کی۔ اڈانی کے ایک ترجمان کا دعویٰ ہے کہ کمپنی قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں 100 ارب ڈالرس سرمایہ مشغول کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ بہرحال اب ہندوستان میں ہر شعبہ میں اڈانی کا زور ہے۔اڈانی پر الزام عائد ہے کہ انہوں نے گوڈڈا کے غریب عوام سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے ۔