بجلی کی قلت اور اس کا حل

   

پروین کمال
اس وقت دنیا میں بجلی کی قلت بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کاروبار حیات بھاری نقصانات کا شکار ہورہے ہیں، معیشتیں کمزور ہورہی ہیں اور ایک افراتفری سی پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین حالات پر قابو پانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ آج کل دنیا بھر میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لئے “Wind Terbine”( ہوائی پنکھے ) استعمال کئے جارہے ہیں، یہ پنکھے ہوا کی حرکت سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور کوئلہ کی بہ نسبت یہ ایک سستا اور آسان طریقہ ہے۔ ( کوئلہ جو گذشتہ ادوار میں بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ تھا اور آج بھی ہے) یہ کوئلہ اور جوہری پلانٹ کے مقابلے دو سے تین گنا سستا ہے۔ جرمن میں بھی اس سلسلہ میں بہت سارے اقدامات کئے جارہے ہیں چنانچہ ہوا کی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ اس سال کے دوران 30 فیصد بجلی ہوا کے ذریعہ حاصل کی گئی اور آئندہ کیلئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سمندری ونڈ فارم ڈنمارک میں ہے جس پر 80 ونڈ ٹربائن لگائے گئے ہیں، یہ بحیرہ شمالی میں 20 مربع میٹر کے رقبہ پر ایستادہ ہیں اور150,000 گھرانوں کو بجلی مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیدر لینڈ میں بھی سمندر میں ونڈ ٹربائن کا بہت بڑا پارک بنایا گیا ہے یعنی بجلی کے بحران کو حل کرنے کا یہ ایک موزوں طریقہ ہے۔ ونڈ ٹربائن اگر خشکی پر نصب کئے جائیں تو خاصے سستے ہیں، سمندروں میں البتہ اس کی تنصیب مشکل اور مہنگی بھی ہے اور اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ کئی مقامات پر سمندر بہت زیادہ گہرے ہوتے ہیں جہاں ٹربائن نصب کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن حضرت انسان نے منفی کو مثبت میں تبدیل کرنے کا ہُنر اب سیکھ لیا ہے۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ تیرتے ونڈ ٹربائن بنائے جائیں اور ان ٹربائن کو پلیٹ فارم سے زنجیروں کے ذریعہ جوڑ دیا جائے اور یہ تیرتے ونڈ ٹربائن تیز رفتاری سے بجلی پیدا کرتے رہیں گے۔ جدید ٹربائن کی اونچائی 180 میٹر ہوگی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ جتنے بلند ہوں گے اتنی ہی زیادہ ہوا حاصل کریں گے۔ ماحولیاتی محکمہ کے مطابق ایک ونڈ ٹربائن پر جو لاگت آتی ہے وہ کوئلہ سے چلنے والے یونٹ سے 70 فیصد کم ہوگی۔ اس کی تنصیب کے بعد تین سے گیارہ مہینوں کے دوران ونڈ ٹربائن سے ضرورت کے مطابق بجلی کا حصول ممکن ہوجائے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بالکل صِفر پر پہنچ جائے گا اور روز افزوں بڑھتی عالمی تپش میں کمی ہوگی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کا سبب ہے اس کی اصل وجہ جو بتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ توانائی حاصل کرنے کیلئے کوئلہ کا استعمال جو صدیوں سے ہوتا آرہا ہے وہی کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھانے کا سبب ہے۔
اٹھارویں صدی سے جب سے کہ صنعتی انقلاب شروع ہوا ہے، فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار270 پی پی ایم سے بڑھ کر 370PPM سے بھی زائد ہوچکی ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے پہلے تک 93 فیصد کوئلہ صرف بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے جو عالمی تپش میں مسلسل اضافہ کا باعث رہا۔ یعنی کوئلہ کے جلنے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے وہی عالمی تپش میں غیر معمولی اضافہ کررہی ہے جس کا اثر ہر جاندار پر پڑ رہا ہے۔ یوں تو کرۂ ارض کی آب و ہوا قدرتی طریقہ سے ہمیشہ ہی تبدیل ہوتی رہی ہے۔ قدرت نے کرۂ ارض پر ہر ذی روح کی بقاء کیلئے ایک انتہائی متوازن اور خوبصورت موسمیاتی نظام ترتیب دیا ہے جس پر عمل کرکے ہم موسم کی شدت اور حدت سے بچ سکتے ہیں اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن آج انسانی سرگرمیاں اس تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ اس خطرہ سے مقابلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔
ماہرین کے مطابق گذشتہ تین صدیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تین گنا بڑھ چکی ہے جو زیادہ تر موٹر گاڑیوں، ٹرکس اور جہازوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور عمارتوں میں لگے ایر کنڈیشنڈ سے بھی بڑی بھاری مقدار میں خارج ہوتی ہے جس کی وجہ سے دن بہ دن عالمی تپش میں اضافہ ہورہا ہے۔ونڈ ٹربائن قائم کرنے کیلئے جرمنی قدم آگے بڑھانے میں سب سے آگے ہے، ابھی تک اس نے29 ونڈ ٹربائن قائم کرلئے ہیں جن میں 28 زمین پر ہیںاور صرف ایک سمندر میں ہے، لیکن یہ پورے جرمنی کیلئے بجلی پیدا کرنے کیلئے ناکافی ہیں مزید تین ہزار سے زائد ٹربائن کی ضرورت ہے جس کیلئے فی الحال کوششیں جاری ہیں جس کے لئے بہت سارے مراحل طئے کرنے ہوتے ہیں۔ اول تو ایکڑوں زمین کی فراہمی اور متعدد ضروری اُمور بھی طئے کرنے ہوتے ہیں کیونکہ نئے ٹربائن کو پرانے ماڈل کے مقابلے میں زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے، اگر چہ کہ اس سے فائدہ بھی زیادہ ہوگا یعنی زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بہت ساری رکاوٹیں اور بھی ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے وقت کی ضرورت ہے، ابھی تو شروعات ہے۔ آج بھی دنیا میں تقریباً80 فیصد کے قریب توانائی کی طلب کوئلہ ، تیل اور گیس سے پوری کی جاتی ہے اور یہ طلب دن بہ دن اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ خیال کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں یہ ذرائع ناکافی ہوجائیں گے۔ مشکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ذرائع ختم ہوجائیں تو ان کی کمی پوری کرنے کی کوئی اور صورت نہیں ہے۔ خاص طور پر کوئلہ ختم ہوجائے تو دوبارہ دستیاب ہونا مشکل ہے کیونکہ اس کی تخلیق کیلئے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔
ہوا کی توانائی کا استعمال یوں تو صدیوں سے کیا جارہا ہے۔ 19 ویں صدی میں یوروپ میں ہزاروں پون چکیاں اور ہوئی پنکھے نصب کئے جاچکے ہیں یعنی ہوا کی حرکی توانائی کو قدیم زمانے سے ہی ماحول سے توانائی حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن آج دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ان منصوبوں میں رکاوٹیں پڑ رہی ہیں۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے توانائی کی طلب بھی بڑھ گئی ہے۔ طلب کو پورا کرنے کیلئے زیادہ تعداد میں ٹربائن نصب کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے زمین کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے بعض شہریوں نے ٹربائن نصب کرنے کے خلاف آواز بھی اُٹھائی لیکن بجلی کی قلت کا مسئلہ جب سامنے آیا تو رضامندی دے دی اور اس میں سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ غرض! اس وقت حالات کچھ یوں ہیں کہ ایک ، ایک خطہ میں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی انسانوں کی رہائش کیلئے وقف ہوتا جارہا ہے، اس تنگی کی وجہ سے ٹربائن کی تنصیب مسئلہ بن رہی ہے۔ جرمنی میں ابھی تک نصف سے زائد بجلی کی پیداوار کوئلہ، گیس اور جوہری پلانٹ سے حاصل کی جارہی ہے لیکن آئندہ کیلئے منصوبہ ہے کہ بجلی کی پیداوار کا کم سے کم 80 فیصد نئے ذرائع سے حاصل کیا جائے اور کوئلہ کی پیداوار میں کمی لائی جائے گی۔ غرض ! اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات سے بچنے کیلئے اجتماعی طور پر پوری دنیا متحرک ہوچکی ہے۔ اب اس نازک موقف میں ہم سب کو بھی انفرادی طور پر حصہ لینا چاہیئے کیونکہ ایک ، ایک اینٹ سے ہی مکان تعمیر ہوتے ہیں۔