بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں

,

   

کرکٹ میچ ایک بہانہ… اڈانی کی مدد اصل نشانہ
بابری مسجد کے بدلہ کچھ بھی قبول نہیں

رشیدالدین
ہر موقع کو ایونٹ بنانا کوئی نریندر مودی سے سیکھے۔ گزشتہ 8 برسوں میں بگ ایونٹ منیجر کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شناخت بنانے والے نریندر مودی نے کرکٹ کو بھی نہیں چھوڑا۔ چین کے سربراہ جب ہندوستان آئے تو جھولا جھولتے ہوئے سہیلیوں کی طرح محبت کا اظہار کیا تھا اور اسرائیل گئے تو بنجامن نتن یاہو کے ساتھ ساحل سمندر پر پانی میں اتر کر بات چیت کی تھی۔ زمین پر تو مودی نے مہمان سربراہان مملکت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ایونٹس بنائے اور اب صرف خلاء میں جاکر مذاکرات کا اہتمام باقی ہے ۔ آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد میں آسٹریلین وزیراعظم انتھونی البانیز کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعہ مودی نے نیا ایونٹ کیا۔ عام طور پر کسی ملک سے کشیدہ صورتحال کے بیچ اس طرح کے ایونٹ کرتے ہوئے کشیدگی کو کم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان سے کشیدگی کم کرنے کیلئے کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیا تھا۔ آسٹریلیا کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کسی بھی معاملہ میں کشیدہ نہیں ہیں، پھر بھی نریندر مودی نے انتھونی البانیز کے ساتھ احمد آباد کے اسٹیڈیم میں آخر کونسا گیم کھیلا۔ آسٹریلین کرکٹ ٹیم ہندوستان میں کئی میچس کھیل چکی ہے لیکن چوتھے اور آخری ٹسٹ میچ کے مشاہدہ کیلئے آسٹریلیا کے وزیراعظم کو مدعو کرنا مطلب سے خالی نہیں ہے ۔ کرکٹ کے مشاہدہ کیلئے اپنے گھر یعنی احمد آباد کا انتخاب محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ عام طور پر سربراہان مملکت کسی بڑے ٹورنمنٹ یا سیریز کے افتتاح یا فائنل میچ کے موقع پر دکھائی دیتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ساتھ کوئی ونڈے یا ٹوئنٹی 20 میچ نہیں تھا کہ جس میں دلچسپی رہے۔ ٹسٹ میچ کا مشاہدہ دونوں سربراہان مملکت کی جانب سے عوام کو ہضم نہیں ہورہا ہے۔ دراصل بیانر کچھ ہے لیکن سرگرمیاں کچھ اور ۔ سیاسی اور اسپورٹ کے حلقوں میں مختلف اندازے اور تبصرے کئے جارہے ہیں۔ نریندر مودی جو سیاسی چالبازیوں کے ماہر ہیں اور جس وقت دونوں ٹیمیں میدان میں رن اور وکٹ کے کھیل میں مصروف تھیں ، نریندر مودی اپنے ہم منصب کے ساتھ مشاہدہ کر رہے تھے یا پھر کسی اپنے قریبی کیلئے بیٹنگ کر رہے تھے ۔ کرکٹ ڈپلومیسی کے لئے مقام اور وقت کا انتخاب بھی منصوبہ بند دکھائی دے رہا ہے ۔ احمد آباد اسٹیڈیم ملک کا واحد اسٹیڈیم ہوگا جسے کسی زندہ شخص سے موسوم کیا گیا ہے ۔ عام طور پر مرحوم شخصیتوں کے نام سے اسٹیڈیم کے نام رکھے جاتے ہیں لیکن مودی نے جیتے جی اپنا نام لگادیا تاکہ زندگی میں مقبولیت کا مزہ چکھ لیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کو یقین نہیں تھا کہ ان کے دنیا سے گزرنے کے بعد ان کا نام کسی اہم پراجکٹ سے موسوم ہوگا ، لہذا زندگی میں ہی اپنے ہاتھوں سے یہ نیک کام انجام دیا۔ ناقدین یہاں تک کہتے ہیں کہ مودی کا بس چلے تو وہ اپنی حیات میں ہی سردار پٹیل کی طرح اپنا قد آور مجسمہ نصب کردیں گے ۔ کرکٹ ڈپلومیسی سے ملک کو بظاہر کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ آسٹریلیا سے تعلقات پہلے ہی سے بہتر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے آخر کس کیلئے آسٹریلین وزیراعظم کے سامنے بیٹنگ کی ۔ سرکاری طور پر بھلے ہی وضاحت نہیں کی گئی لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مودی نے اپنے دوست گوتم اڈانی کی مدد کیلئے یہ ڈپلومیسی رکھی تھی۔ کرکٹ میچ تو ایک بہانہ تھا لیکن اصل نشانہ اڈانی کو بچانا اور مدد کرنا تھا۔ ویسے بھی نریندر مودی اپنے دوست کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے گوتم اڈانی کی مدد کیلئے گجرات میں ہی کرکٹ ڈپلومیسی کا اسٹیج سجایا گیا۔ اڈانی کو ان دنوں آسٹریلیا میں عوامی مخالفت کا سامنا ہے اور ان کے اداروں کیلئے حالات سازگار نہیں۔ آسٹریلیا میں اڈانی گروپ مائننگ کا کام انجام دے رہا ہے ۔ مائننگ سے ماحولیاتی نقصانات کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے جہد کاروں اور عوام کی جانب سے اڈانی گروپ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ عوام کے دباؤ کے تحت آسٹریلیا کی حکومت کہیں کنٹراکٹ ختم نہ کردے، اس اندیشہ کے تحت مودی اپنے دوست کو بچانے کرکٹ کا سہارا لیا ۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ ملک کے باہر کئی ممالک میں گوتم اڈانی کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ۔ مودی نے احمد آباد اسٹیڈیم میں یقیناً اپنے دوست کیلئے سفارش ضرور کی ہوگی۔ پتہ یہ چلا کہ بھلے ہی ملک کا نقصان کیوں نہ ہو لیکن اڈانی کے مفادات متاثر نہ ہونے پائیں ۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ نے اڈانی گروپ کی اصلیت کو بے نقاب کردیا۔ اڈانی اداروں کی مالیاتی بے قائدگیوں کے نتیجہ میں LIC اور SBI جیسے اداروں کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر کافی ہنگامہ ہوا لیکن مودی نے ایک لفظ نہیں کہا۔ پارلیمنٹ کی تقر یر میں اڈانی کا نام تک نہیں لیا گیا حالانکہ مالیاتی بے قاعدگیوں کا ملک کی معیشت پر منفی اثر لازمی ہے ۔ مودی حکومت نے مالیاتی بے قاعدگیوں کی جانچ کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کی تشکیل سے انکار کیا۔ آخر کار سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس وقت شیئر مارکٹ میں اڈانی گروپ کے شیئرس تیزی سے گر رہے تھے، نریندر مودی نے اپنے قریبی صنعتی گھرانوں حتی کہ متحدہ عرب امارات کے حکمراں کے ذریعہ اڈانی کی مدد کی ۔ گوتم اڈانی سے مودی کی بے پناہ ہمدردی اور محبت سے ہمیں زمانہ قدیم کی فلم ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ یاد آگئی جس کا نغمہ ’’ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو‘‘ کافی مقبول ہوا تھا ۔ مودی بھی اڈانی کیلئے یہی گانا گنگناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی سے آسٹریلیا نے اڈانی کو مائننگ کی اجازت کا کیا ہوگا۔ ٹسٹ میچ بھلے ہی کوئی ٹیم جیتے لیکن مودی کو اپنے دوست کی فکر ہے۔ میچ کے دوران مودی کی پیشانی پر اس وقت بل ضرور پڑے ہوں گے جب آسٹریلین کھلاڑی عثمان خواجہ نے سنچری بنائی۔ مودی کی موجودگی میں سنچری اور وہ بھی عثمان خواجہ کی۔ ظاہر ہے کہ مودی کو کافی وقت برداشت کرنا پڑا ۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے اور بی جے پی آئندہ عام انتخابات سے قبل یعنی جنوری 2024 ء میں تعمیری کام مکمل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ مندر کے نام پر ووٹ حاصل ہوں۔ 9 نومبر 2019 ء کو سپریم کورٹ نے مسجد کی اراضی کو مندر کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا ۔ ایسا نہیں تھا کہ مسجد کے حق میں دلائل اور ثبوت کمزور تھے ۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ مسجد کی شہادت غیر قانونی ہے اور مسجد کا پہلے سے وجود مسلمہ ہے۔ اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ۔ اس طرح سپریم کورٹ نے بالواسطہ طور پر رام کے جنم استھان کی تھیوری کو قبول نہیں کیا۔ عدالت نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا اور فیصلہ کے بعد وقفہ وقفہ سے مرکزی حکومت نے فیصلہ میں شامل تین ججس کو اپنے اختیارات سے اہم عہدے عطا کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ بی جے پی اور اترپردیش حکومت کی جانب سے بابری مسجد کے عوض دھنی پور علاقہ میں تعمیر کی جارہی مسجد کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی جارہی ہے ۔ رمضان المبارک کے بعد تعمیری کاموں کا آغاز ہوگا اور مسجد کے ساتھ ہاسپٹل اور میوزیم کا بھی منصوبہ ہے ۔ مسجد کا نقشہ انتہائی عالیشان تیار کیا گیا ہے لیکن مسلمان اس نقشہ سے متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ شرعی اعتبار سے بابری مسجد اپنے مقام پر تاقیامت باقی رہے گی بھلے ہی اس پر کسی کا غاصبانہ قبضہ کیوں نہ ہو۔ میوزیم میں ہوسکتا ہے کہ یو پی حکومت رام جنم استھان اور رام مندر کے بارے میںاپنے اعتقاد کے مطابق تفصیلات پیش کرے گی تاکہ مسلمانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ بابری مسجد کی شہادت درست تھی۔ میوزیم میں تو بابری مسجد کی شہادت کی تصاویر اور ویڈیوز کو رکھا جانا چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں کو سچائی کا پتہ چلے۔ مجاہد آزادی احمد اللہ شاہ فیض آبادی کے نام سے مسجد کو موسوم کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو خوش کیا جائے۔ اگر اس مسجد کو مغل شہنشاہ بابر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تو مسلمان خوش نہیں ہوتے۔ بابری مسجد کے بدلہ میں ملک میں ایک لاکھ مساجد بھی حکومت تعمیر کردے تب بھی اس کا بدل نہیں ہوگا۔ بابری مسجد کے عوض نئی مسجد کو تسلیم کرنے اور تعمیری کاموں میں پیش پیش سرکاری مسلمانوں کو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا ہوگا۔ مسلمانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اب تو 6 ڈسمبر کو بابری مسجد کی یاد منانا بھی بھول چکے ہیں۔ اسی دوران سیکولرازم اور مسلمانوں کی ہمدردی کے دعویدار نتیش کمار کی ریاست میں بیف کے نام پر ایک مسلمان کو قتل کردیا گیا۔ بہار کے سیوان ضلع میں نصیب قریشی کو گاؤں والوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ نصیب قریشی بیف کے ساتھ جارہے ہیں۔ اگر یہ واقعہ کسی بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں پیش آتا تو بات سمجھ میں آتی لیکن یہاں تو جنتا دل (یو) اور آر جے ڈی کا راج ہے لیکن وہ بھی زعفرانی دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ ملک میں ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا یہ سلسلہ آخر کب ختم ہوگا۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں اور سنگھ پریوار کو مسلمانوں کا خون بہانے کی خوشی آخر کب تک قائم رہے گی۔ انسانی حقوق کا ملک میں کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ بہار کے اس واقعہ پر ندا فاضلی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو