برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

   

عثمان شہید ،ایڈوکیٹ
ہندوستان کسی قبیلے ،فرقے ،کسی مذہب یا کسی فردِ واحد کی ملکیت نہیں ہے۔یہ وہ ہر شخص کا وطن عزیز ہے جو یہاں آیا رہ گیا۔ یہاں کی عطرویزہوائوں کے دوش پر سوگیا ، یہاں کی سرزمین پر ہر ایک کا حق ہے۔ سب کو رہنے کا حق ہے۔ جائیداد تعمیر و ترمیم کرنے کا حق ہے۔ کھیتی باڑی کرنے کا حق ہے۔ اناج اُگانے کا حق ہے۔ اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق ہے، اس کی ندیوں مچلتی لہروں پر اس کے بحرہند پر اس کے بحرالکاہل کے ٹھٹے مارتے موجوں پر ، اس کی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ، یہاں کی دکانوں پر ، مکانوں پر، تمام باشندوں کا حق ہے۔ گنگا کی موجوں پر ،جمنا کے سایہ پر ، سرسوتی کی لہروں پر، رودموسیٰ پر سب کا حق ہے۔ کشمیر کے سبزہ زاروں پر، گلستانوں پر، کلیوں کی مسکان پر، گلوں کی پھبن پر سب کا حق ہے۔ اسی لئے شاعر مشرق نے کہا تھا ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
اس ملک میں کئی اقوام پناہ لینے کے لئے آئے۔دراوڑی آئے یہاں بسیرا کیا۔ مغل آئے اس کو اپنا وطن بنایا۔ پٹھان آئے ، انگریز آئے ، غلام آئے، مالک آئے، مملوک آئے۔ فرانسیسی آئے ، عیسائی آئے، یہودی آئے، لودھی آئے، پارسی آئے یہی دفن ہوگئے۔ انگریز تو اس کی بہار لوٹ لئے۔ ہر ایک نے کہا ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
پھر موسم بدل گیا، آسمان کا رنگ بدل گیا، ہوا کا رُخ بدل گیا، سماج کا مزاج بدل گیا۔ جمہوری نظام کیا آیا ہر فرد واحد کے مزاج میں تغیر آگیا۔ ووٹ کا حصول مقصد حیات بن گیا۔ اقتدار ہر ذی حیات کی منزل بن گئی۔ہر فرد واحد تو اکبراعظم یا اشوک اعظم تو نہیں ہوسکتا۔ ہاں جماعتیں ووٹ کی بنیاد پر بادشاہ کا نعم البدل بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہوگئی۔ جماعت کیسے بنے، بہت غور وفکر کے بعد فرقہ پرستی کی بنیاد پر جماعت کے لئے ڈول ڈالا گیا۔ فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی۔ نفرت کو ممکنہ حد تک اُجاگر کیا گیا۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بویا گیا۔ یہ فصل خوب رنگ لائی۔
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
فرقہ پرستی کے شجر پر ایسے زہریلے پھل پھول کھلے کہ کوئی کلی ،کوئی غنچہ فرقہ پرستی کے زہرہلاہل سے محفوظ نہ رہا۔ اس شجر سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا۔ وہ مسلمان جنہوں نے خود کی اپنے بیٹوں کی قربانیاں دی، پھانسیوں پر خوشی خوشی لٹک گئے اور وہی تباہی و بربادی اور مفلسی کی جیتی جاگتی تصویر بنے ہوئے ہیں اور باآواز بلند کہہ رہے ہیں ؎
طبل علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
اس ملک پر مسلمانوں نے ایک ہزارسال بڑے شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔ سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے۔ آج میں پوچھتا ہوں برادران وطن سے بتائو فرقہ پرستوں سے کیا ملک کو ہندوراشٹر بنانے آصف جاہی سلطنت ، قطب شاہی مملکت یا پھر کسی اور مملکت کے بارے میں فرضی کہانیوں ، واقعات ،تصاویر رسالوں میں چھاپ کر فرقہ پرستی کو ہوا دی اور ماحول بگاڑ دیا۔ بابورائو پاٹل نے تو ایک پرچہ مدرانڈیا کے نام سے شائع کیا جس میں فرقہ پرستی کو خوب ہوا دی گئی۔ نئی نسل کے نوجوانوں سے میں پوچھتا ہوں کیا یہ سچ نہیں کہ بابورائو پاٹل پروفیسر اوک نے تمہارے ذہن کو خراب کرنے اور مسلم دشمن بنانے میں خوب کردار ادا کیا۔جس کی مثال یہ ہے کہ قوم کے باپو گاندھی جی کو پہلی مرتبہ مسلمانوں نے مہاتما کا خطاب دیا اور اُن کو کوئی اور نہیں اُن قوتوں کے نمائندے نے قتل کیا جو ہندو مسلم اتحاد نہیں چاہتا تھا۔ ملک کے طاقتور وزیراعظم مسزاندراگاندھی کا قتل کس نے کیا، آپ سب واقف ہیں۔ اگر مسلمان پر بھروسہ کرکے ان کے باڈی گارڈ بنایا جاتا تو مسزگاندھی کا یوں قتل نہ ہوتا۔ راجیوگاندھی کے قتل میں کیا مسلمانوں کا ہاتھ تھا یا ان کے قتل کے منصوبہ بندی میں کیا کوئی مسلمان شریک تھا، کیا مسلمانوں نے فوجی راز غیرممالک کو فروخت کیا۔ بیرکے ایک باٹل کے عوض فوجی راز فروخت کئے۔ پھر مسلمانوں کے خلاف یہ دشمنی کیوں؟ ان پر گھیرا کیوں تنگ کیا جارہا ہے۔ اور تو اور خود پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی۔ کیا مسلمانوں نے غداری کی؟ جنگ نہیں لڑی ، ملک کو ایک لٹے پٹے بادشاہ نے پانچ ٹن سونا ڈیفنس فنڈ میں دیا۔ جس سے چین کی جنگ میں ہتھیار خریدے۔تم جانتے ہویہاں ہماری نعل گڑی ہوئی ہے۔ ہم یہاں سے کسی قیمت باہر جانے والے نہیں۔ وطن کو چھوڑنے والے نہیں، یہاں خواجہ غریب نوازؒ کا آستانہ ہے، یہاں بابافریدؒ کا ٹھکانہ ہے۔یوسف باباشریف بابا کا تعلیم خانہ ہے۔ حضرت بختیار کاکیؒ ،حضرت تاج الدین بابا ، حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ، حضرت بابا شرف الدین اور کئی اولیاء کے مزار ہیں۔کون انہیں چھوڑ کر جائے گا۔ہم مرجائیں گے لیکن ملک نہیں چھوڑیں گے،جس کو ہمارے خون سے ہم نے سینچا ہے۔ سرمابن کر ہمارے آباواجداد کی ہڈیاں یہاں کی سرزمین میں کھاد بن کر شامل ہوگئی ہیں۔ ہماری وفاداری ،وطن پرستی پر کئی مرتبہ شک کیا گیا، یہاں تک کہ ملک کے پہلے وزیرداخلہ نے یہ سرکولر خفیہ طور پر جاری کیا تھا کہ مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ کیا جائے جس کا اعلان پڑھ کر شری پنڈت سندر لال نے کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے پہلے جلسہ میں کیا تھا۔ میں پوچھتا ہوں کیا اُس فرمان کی سیاہی اب تک نہیں سکھی۔ شری بلراج مدھو ک جن سنگی جو پہلی دفعہ حیدرآباد آئے تو ان کے سامنے بلدیہ کے ملازمین کی بھی فہرست رکھی گئی جس کو پڑھ کر انہوں نے کہا تھا کہ کیا بات ہے اس میں مسلم نام نظر نہیں آتے۔ اس کے کچھ دن بعد دو مسلم خواتین کا نام جاروب کشوں میں شامل ہوگیا۔میں جانتا ہوں جو خلاء نچلی ذات کے اوپر اٹھنے سے پیدا ہورہا ہے۔ اس کو مسلمانوں سے پُر کیا جائے گا اور انہیں نچلی ذات کے عہدوں پر فائز کیا جائے گا۔ شاید یہی مقصد تمہارا فسادات کروانے کا منصوبہ ہے۔ کیا اسی لئے مسجدوں ، درسگاہوں، مدرسوں کو بلڈوزر کے ذریعہ گرایا جارہا ہے۔ کیا اسی لئے ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔یاد رکھو
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اللہ کے پاس نظر نہ آنے والی ایسی فوجیں ہیں جو بڑی سی بڑی طاقت کو تباہ کرسکتی ہیں۔اللہ کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں۔