بلیک فنگس ہندوستانیوں کیلئے ایک اور مشکل

   

موہن باسو
ہندوستان پہلے ہی سے کورونا وائرس کی گرفت میں ہے۔ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی زندگیوں سے محروم بھی ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایک اور نئی مصیبت نے ہمارے ملک کو آن گھیرا ہے اور وہ نئی مصیبت بلیک فنگس ہے۔ ملک میں بلیک فنگس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور تاحال تقریباً 12 ہزار افراد بلیک فنگس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ اس بیماری مہلک وباء کی اصل وجہ
Oralsteroids
کا بہت زیادہ استعمال بتائی کی گئی ہے۔ جہاں تک بلیک فنگس کے متاثرین کی تعداد کا سوال ہے ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ بلیک فنگس ا
mucormycosis
ایک بھپھوندی سے پیدا ہونے والی بیماری ہے جسے انگریزی میں
Fungal infection
کہا جاتا ہے اور شاذ و نادر ہی لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ برسوں سے میڈیکل پریکٹس کررہے ڈاکٹرس کو اس بیماری سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے یا اس کے مشاہدہ کا موقع نہیں ملا۔ اس کے کیسیس خال خال ہی نظر آیا کرتے تھے۔
ہندوستان ٹائمس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 7250 لوگ اب تک اس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن منت کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ بلیک فنگس متاثرین کی تعداد 11717 ہوگئی ہے اور ملک کی صرف 5 ریاستوں گجرات، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور مہاراشٹرا میں بلیک فنگس کے 65 فیصد مریض پائے جاتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں 2770، گجرات میں 2859، آندھرا پردیش میں 768، مدھیہ پردیش میں 752 اور تلنگانہ میں 744 افراد بلیک فنگس کی زد میں آئے ہیں۔ جہاں تک بلیک فنگس کا سوال ہے اس کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھتے ہوئے مرکز نے اسے نوٹیفائیڈ بیماری قرار دینے کی ہدایت دی۔ نوٹیفائیڈ بیماری کا مطلب یہ ہیکہ اگر کسی بھی کیس کا پتہ چلتا ہے تو اس کے بارے میں حکومت یا متعلقہ محکمہ یا پھر حکام کو آگاہ کرنا لازمی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں تپ و دق
(Tuberculosis)
ہیضہ اور ڈفتھریا ایسی بیماریاں ہیں جنہیں نوٹیفائیڈ بیماریاں قرار دیا گیا ہے۔ بلیک فنگس کی بیماری کے نتیجہ میں اب ہندوستان کو ایک ساتھ دو دو وباؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلیک فنگس دراصل اسٹپرائیڈس کے بے دریغ استعمال کا نتیجہ ہے، یہ وہی اسٹرائیڈس ہیں جسے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج میں استعمال کیا گیا۔ لوگوں نے لاعلمی میں
Oral Sleroid
کا بہت زیادہ استعمال کیا جبکہ حکومت نے ہمارے ملک کے ناقص نظام صحت کی ناکامیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا، حالانکہ کووڈ کے مریضوں کا جو علاج کیا گیا وہاں حفظان صحت کے ناقص انتظامات تھے اور اس کے باعث یہ بیماری زور پکڑتی گئی ورنہ ہمارا ملک بلیک فنگس سے محفوظ رہتا۔ اب حال یہ ہوگیا ہیکہ مختلف ریاستی حکومتیں بلیک فنگس کے علاج میں استعمال ہونے والے
Amphitericin B
کی وافر مقدار میں فراہمی کے لئے مرکزی حکومت سے مطالبہ کررہی ہیں اور وہ اس بات کی شکایات بھی کررہی ہیں کہ مرکزی حکومت انہیں درکار
Vials
فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اب ایسا لگتا ہیکہ جس طرح ملک میں آکسیجن کی قلت پیدا ہوگئی اس طرح
Amphitericin B
کی بھی قلت ہوگئی ہے۔
ڈیکسا میتھاسون کا استعمال
جہاں تک سیاہ پھپھوندی
(Black Fungus)
کا سوال ہے، یہ دراصل ماحول میں ہر طرف پائے جانے والے جراثیم ہیں لیکن یہ جراثیم ان ہی مریضوں میں بیماری کا باعث بنتے ہیں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ذیابیطس سے متاثر لوگ اور کینسر کے مریض ان لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ بلیک فنگس یا میوکر مائیکوسس کی علامتوں میں آنکھ میں درد اور آنکھوں کا سرخ ہونا اور ناک کے اطراف سرخی مائل جلد کا ابھرنا، بخار، سردرد، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف شامل ہیں۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ خون کی اُلٹیاں کرتے ہیں یا ان کے ناک کے نتھنوں سے خون کا اخراج عمل میں آتا ہے۔ یہ ایسا انفیکشن ہے جس کی اکثر و بیشتر تاخیر سے تشخیص ہوتی ہے اور اس کی شدت کا دارو مدار مریض میں پائے جانے والے انفیکشن اور مختلف بیماریوں پر ہوتا ہے اور بلیک فنگس سے متاثرہ لوگوں میں شرح اموات 30 تا 70 فیصد ہوتی ہے۔
ہندوستان میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ کا مطلب ہسپتالوں میں مریضوں کی حد سے زیادہ تعداد کا شریک کیا جانا ہے اور یہ مریض ایسے ہوتے ہیں جن کی حالت بہت نازک ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ ہندوستان میں آکسیجن کی قلت ہے ، ہندوستانی ، سیلنڈرس کیلئے قطاروں میں کھڑے ہیں یا پھر سوشیل میڈیا پر مدد کیلئے اپیلیں پوسٹ کررہے ہیں۔ مودی حکومت اسپتالوں میں بستروں اور آکسیجن کی قلت کی تردید کرتی جارہی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسپتالوں میں بستر اور آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ۔ ان حالات میں تردید اور انکار میں وقت خراب کرنے کی بجائے اس وقت کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آکسیجن کی قلت کو تسلیم کرتے ہوئے لوگوں کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ گھروں میں نازک مریضوں کا کس طرح علاج کیا جائے۔ اس طرح کی اہم معلومات کے فقدان کے نتیجہ میں مریضوں، ریاستی حکومتوں اور رضاکارانہ تنظیموں کے والینٹرس کو نامکمل معلومات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ نتیجہ میں کووڈ۔ 19 کے مریض ایسی ادویات کا استعمال کررہے ہیں جو ان کے جسم میں موجود مدافعتی نظام کو بلیک فنگس کے مقابلے کمزور کردیتا ہے۔ کئی ایسے اسپتال ہیں جہاں آئی سی یو کے باہر اور وارڈس میں بھی بلیک فنگس کے متاثرین کے پائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ہندوستانی شہری کووڈ سے متاثرہ مریض کو بچانے کیلئے آکسیجن بھی دے رہے ہیں اور وہ حفظان صحت کے شرائط کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آلات کو اسٹرلائزکے عمل سے نہیں گزارا جارہا ہے اور جس وقت آکسیجن تھراپی کی جاتی ہے ، اس وقت عمل مرطوب کیلئے ڈِسٹل واٹر کی ضرورت ہوتی ہے او
ر Humidisiers
کے عمل میں ہر روز ڈسٹل واٹر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جس ڈسٹل واٹر کی مدت استعمال ختم ہوچکی ہو، اسے بھی استعمال نہیں کرنا چاہئے۔اس طرح کی غلطیوں سے بلیک فنگس ہوتا ہے۔ اسپتال کے باہر اسٹیرائیڈس استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے ہی اس کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ بعض ریاستی حکومتوں نے ہوم آئسولیشن کٹس کے ساتھ اسٹیرائیڈس بھی تقسیم کئے ہیں۔ ہندوستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا کورونا ٹسٹ پازیٹیو ہوجاتا ہے۔وہ ان گولیوں کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ ’’دی پرنٹ‘‘ نے ایک ایونٹ میں بتایا تھا کہ ہلکے سے کووڈ سے متاثر لوگ کس طرح ادویات کے بارے میں گوگل کا استعمال کررہے ہیں جو صرف اسپتالوں میں استعمال کئے جانے چاہئے۔