’’بلی بائی ‘‘ ایپ کیس : ہندوتوا کے سائبر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا ثبوت

   

سید علی مجتبیٰ
’’بلی بائی ‘‘ایپ کیس میں ممبئی اور دہلی پولیس نے جو گرفتاریاں کی ہیں، اس سے ہندوستان میں ہندو سائبر جہادیوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ اب یہ عام خیال ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ نے ملک میں ایک ایسا سائبر ایکو سسٹم یا سائبر ماحولیاتی نظام قائم کیا ہے جو ملک کی داخلی سلامتی کیلئے خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔ بلی بائی ایپ کیس میں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے، ان میں اُتراکھنڈ کے ضلع ادھم سنگھ نگر کی رہنے والی 19 سالہ شویتا سنگھ، اتراکھنڈ کے ہی علاقہ کوٹ دوار سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ ماینک راوت ، بنگلور سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ وشال جھا، آسام کے جوہاٹ سے تعلق رکھنے والے نیرج بشنوئی اور اندور کے اوم کرشور ٹھاکر شامل ہیں۔ شویتا سنگھ ایک ذہین طالبہ ہے۔ ماینک راوت ذاکر حسین کالج دہلی سے کیمسٹری آرنرس کا طالب علم ہیں۔ وشال کمار جھا بنگلورو کے ایک انجینئرنگ کالج میں زیرتعلیم ہیں۔ نیرج بشنوئی بھوپال کے وٹ سے بی ٹیک کررہا ہے اور وہ سال دوم کا طالب علم ہے۔ اسی طرح اوم کرشور ٹھاکر، بیچلر آف کمپیوٹر اپلیکیشن کی ڈگری رکھتا ہے۔ تحقیقات کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ یہ تمام ٹیکنالوجی جاننے والے اور ٹیکنالوجی کے شوقین نوجوان ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان لوگوں نے نیپال میں رہنے والے کسی کی ہدایت پر یہ کام کیا ہے۔ ان تمام کی باہمی دلچسپی یا مشترکہ مفادات صرف ایک نظریہ سے جڑے ہوئے ہے اور وہ ہندوتوا کا نظریہ ہے اور ہندوتوا کے نظریہ سے یہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے رگ و پے میں ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے کا جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کام کررہے ہیں جس طرح اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا نے کام کیا ہے۔ ان نوجوانوں نے ایک کمپیوٹر اپلیکیشن تیار کیا ہے اور اسے ’’بلی بائی‘‘ ایپ کا نام دیا جہاں وہ مسلم خواتین بالخصوص سماجی جہد کاروں کی تصاویر اَپ لوڈ کیں اور پھر انہیں نیلامی کیلئے Git Hub پلیٹ فارم پر پوسٹ کردیا۔ بلی بائی ایک توہین آمیز ہندی لفظ ہے جسے دائیں بازو کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلم خواتین کیلئے سوشیل میڈیا پر استعمال کرتی ہیں۔
بلی بائی ایپ کیس میں جس طرح مسلم خواتین کی تصاویر پوسٹ کی گئی اس کا مقصد احتجاجی مظاہروں میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والی مسلم خواتین کی توہین کرنا تھا اور ساتھ ہی ہندوستان کی 20 کروڑ مسلم آبادی کو دھمکی دینا تھا اور انہیں اپنا تابع بنانا تھا۔ بلی بائی ایپ کیس میں جو گرفتاریاں کی گئی، اس کے بارے میں دو نظریات منظر عام پر آئے۔ پہلا نظریہ تو ہے کہ یہ دراصل ہندوستان میں موجود ایک منظم ریاکٹ ہے جس میں ہندوتوا کے لڑاکو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے کام کررہے ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس کا مقصد ہندوستان کی مسلم آبادی کی توہین کرنا اور ان سے دھمکانا ہے۔ بلی ایپ اور سلی ایپ ایک منصوبہ بند پراجیکٹ ہے اور ایک وسیع تر آپریشنل نیٹ ورک رکھتا ہے۔ جہاں سرکاری اور خانگی شعبہ بھی ہندوستان میں ہندو راشٹر قائم کرنے کے ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ ملوث ہیں۔ یہ گروپ سائبر دہشت گردی کے ذریعہ ہندوستان میں ایک جانبدارانہ اور معلومات کا ماحول پیدا کررہا ہے۔ ان سائبر دہشت گردوں کو یہ پتہ نہیں یا وہ اس بات کو لے کر کسی بھی طرح فکرمند نہیں کہ ان کی حرکتوں سے ملک کے جمہوری عمل پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی رہنمائی ایسے مفادات حاصلہ کررہے ہیں، جن کا مقصد ملک کو ایک ہندو راشٹرا بنانا ہے اور اس کیلئے وہ انٹرنیٹ کی طاقت کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان معاملات میں کی گئی چند گرفتاریاں صرف ایک دِکھاوا ہے جبکہ کئی ایک سے خفیہ سیلس بھی مصروف ہوتے ہیں جو ایک توہین آمیز ایپ کی لانچنگ کیلئے اپنے آقاؤں کے اشاروں کا انتظام کررہے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل ایک اہم ارکان پر مشتمل ٹیم رکھتی ہے جو 20 ہزار سائبر لڑاکوںکی رہنمائی کرتے ہوئے یہ بتاتی ہے کہ کس طرح خود بہ خود نفرت پھیلائی جائے، کیسے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پر جذبات کا استحصال کیا جائے۔ مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کو کیسے نشانہ بنایا جائے اور اس کیلئے کس طرح کا مواد پیش کیا جائے۔ جہاں تک مواد کا سوال ہے، اس کی تیاری میں اعلیٰ ذہن کام کرتے ہیں۔ جس طرح فوج کو تربیت دی جاتی ہے اسی طرح ان سائبر دہشت گردوں کو بھی تربیت دی جاتی ہے اور پھر انہیں ترتیب وار انداز میں انٹرنیٹ کے مختلف پلیٹ فارمس پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عام لوگوں میں یہ بات بھی پھیلی ہوئی ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کی اہم ترین ٹیم تقریباً 150 ارکان پر مشتمل ہے اور جنہیں بہت زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے سائبر سپاہیوں کو گھنٹے کی بنیاد پر رقم ادا کی جاتی ہے۔ تحقیقات سے اس بات کا پتہ چلا کہ نفرت پھیلانے والے اور نوخیز نسل کے ذہنوں کو فرقہ پرستی سے آلودہ کرنے اور ان کے ذہنوں میں نفرت بھرنے کیلئے ٹیک فوگ اپلیکیشن استعمال کیا گیا اور یہ اپیلیکشین کسی اور نے نہیں بلکہ بی جے پی آئی ٹی سیل نے استعمال کیا اور جہاں تک ٹیک فوگ اپلیکیشن کا سوال ہے ، یہ حکومت اور ہندوتوا کے خلاف بولنے اور ان کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو ہراساں اور پریشان کرنے والوں کا خطرناک ہتھیار ہے۔یہ ایپ دراصل شیطانی ذہنوں کی پیداوار ہے اور جو نوجوان ہیں اس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں، انہیں ریاست کی پوری پوری سرپرستی حاصل ہے اور وہ ملک میں سماجی عدم ہم آہنگی پیدا کرنے کے مشن پر ہیں۔