بندلہ گوڑہ میں سماجی کارکن شیخ سعید باوزیر کا بہیمانہ قتل ‘ پولیس پر ناکامی کا الزام

   

مقتول نے خود پولیس کو جان کو خطرہ لاحق ہونے سے واقف کروایا تھا ۔ پولیس تماشائی بنی رہی ۔ ورثاء کا انصاف کا مطالبہ

حیدرآباد ۔11۔ اگست (سیاست نیوز) جان کو خطرہ لاحق ہونے کی اطلاع پولیس کو مسلسل دینے کے باوجود بھی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ایک شخص کی جان بچانے میں پوری طرح ناکام رہیں اور متاثرہ شخص کا کھلے عام قتل کردیا گیا ۔ یہ واقعہ بنڈلہ گوڑہ پولیس اسٹیشن حدود میں کل رات اس وقت پیش آیا جب بارکس کے ساکن شیخ سعید بن عبدالرحمن باوزیر کا بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا ۔ تفصیلات کے مطابق بفتیم بلڈنگ کی پہلی منزل متصل رائل سی ہوٹل بنڈلہ گوڑہ میں احمد بن حاجب نامی شخص نے باوزیر کا چاقو سے حملہ کر کے قتل کردیا ۔ حملہ آور نے باوزیر کی گردن ، پیٹ اور سینہ پر مسلسل ضربات لگائے جس کی وجہ سے اس کی برسر موقع موت ہوگئی۔ اطلاع ملنے پر بنڈلہ گوڑہ پولیس کی ٹیم مقام واردات پر پہنچ گئی اور نعش کو بغرض پوسٹ مارٹم دواخانہ عثمانیہ منتقل کیا۔ اس قتل کے بعد مقتول کے والد 62 سالہ شیخ عبدالرحمن بن سعید باوزیر نے بنڈلہ گوڑہ پولیس سے تحریری شکایت درج کرائی جس میں خاطیوں کے ناموں کا انکشاف کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق مقتول کے والد نے ان کے بیٹے شیخ سعید بن عبدالرحمن باوزیر کے قتل کے پس پردہ احمد بن حاجب کے علاوہ احمد سعدی (جل پلی انچارج مجلس پارٹی) ، عبداللہ سعدی (جل پلی میونسپل چیرمین مجلس ) ، صالح سعدی ، اقبال بن خلیفہ اور سلم بن خلیفہ پر قتل میں ملوث رہنے کا الزام عائد کیا ۔ مقتول کے والد نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ ان کے بیٹے سعید باوزیر نے اس کو ملنے والی دھمکیوں سے وہ چندرائن گٹہ پولیس اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو واقف کرواتے ہوئے اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن سیاسی اثر و رسوخ کے نتیجہ میں اس کی درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کے سبب یہ قتل کی واردات پیش آئی ۔ مقتول کے والد نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ کھلے عام قتل کی دھمکی واٹس ایپ پر مل رہی تھی اور یہ پیامات مختلف گروپس میں بھی گشت کئے جارہے تھے، اس کے باوجود پولیس نے باوزیر کی جان بچانے کی بجائے اسے مجرم قرار دیتے ہوئے کارروائی سے گریز کیا۔ دریں اثناء باوزیر کے قتل کے بعد سوشیل میڈیا پر ایک آڈیو کلپ وائرل ہوئی جس میں مقتول کی جانب سے اپنے ہی قتل کے خدشہ اور خاطیوں کی نشاندہی کرواتے ہوئے وزیر داخلہ جناب محمود علی سے بات چیت میں اس حقیقت کو واقف کرانے کی بات بتائی گئی ۔مقتول کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا جل پلی اور اس کے اطراف میں بلدی نظم و نسق کی کارکردگی ناکام ہونے پر عوام میں شعور بیداری کیلئے سوشیل میڈیا پر ویڈیوز کے ذریعہ عوام کو آگاہ کیا کرتا تھا ۔ شیخ عبدالرحمن بن سعید باوزیر نے یہ بتایا کہ ان کا بیٹا ایک سماجی کارکن تھا اور سیاسی رقابت کے نتیجہ میں اس کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے تھے جس میں پولیس نے یکطرفہ کارروائی کی ہے۔ اس قتل کے بعد مقتول کے مکان واقع بارکس میں آج رات دیر گئے اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب باوزیر کے افراد خاندان نے بعد پوسٹ مارٹم نعش کی تدفین کرنے سے انکار کردیا اور خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس عہدیداروں سے ربط کئے جانے پر کسی نے بھی اس پر جواب دینے سے گریز کردیا اور بعض پولیس عہدیداروں نے یہ ظاہر کیا کہ سعید باوزیر چندرائن گٹہ پولیس اسٹیشن کا روڈی شیٹر تھا اور اس کے خلاف 7 مقدمات درج تھے جن میں 4 مقدمات میں وہ بری ہوگیا تھا اور تین معاملات زیر التواء تھے۔