بنگال میں ڈاکٹرس کی ہڑتال

   

ہر بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
بنگال میں ڈاکٹرس کی ہڑتال
ریاست مغربی بنگال ایسا لگتا ہے کہ مسلسل خبروں میں بنی رہے گی ۔ یہاں انتخابات سے قبل پیش آنے والے تشدد اور پھر انتخابی مہم میں سیاسی الزامات و جوابی الزامات ۔ انتخابی ریلیاں وغیرہ خبروں کا حصہ رہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی وجہ سے بھی بنگال کی ریاست کو خبروں میں مرکزی مقام حاصل رہا کیونکہ یہاں بی جے پی ممتابنرجی کے قلعہ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ اب یہاں ڈاکٹرس کی ہڑتال کی وجہ سے گہما گہمی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ڈاکٹرس کی ہڑتال کے مسئلہ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے ۔ ریاست میں ہر موقع پر سیاست ایک معمول بن گیا ہے اور ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے اس کا استحصال کرنے کی ہر گوشہ کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے ۔ ڈاکٹرس کی ہڑتال ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو سیاست سے الگ کرتے ہوئے پیشہ کی اہمیت اور مہارت اور اس سے عوام کے راست تعلق کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھنے کی ضرو رت ہے تاکہ اس مسئلہ کی یکسوئی ہوسکے ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی اور بی جے پی وہاں ایک دوسرے کے خلاف مد مقابل ہیں۔ ہر مسئلہ پر ان کے مابین اختلافات ہیں اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں ڈاکٹرس کی ہڑتال کا استحصال کیا جا رہا ہے اور ایک طرح سے ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جہاں ڈاکٹرس اور حکومت کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔ ڈاکٹرس خود مغربی بنگال میں بھی اور ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی اپنے مسائل کے حق میں ہڑتال کرتے رہتے ہیں ‘ ریاستی حکومتیں ان سے صورتحال کے مطابق نمٹتی ہیں۔ کبھی ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جاتا ہے کبھی مسائل کی یکسوئی کا تیقن دیا جاتا ہے اور بات چیت کے ذریعہ ہڑتال کو ختم کیا جاتا ہے تاکہ سرکاری دواخانوں سے رجوع ہونے والے مریضوں کے علاج میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ پیدا ہونے نہ پائے ۔ اس بار صورتحال معمول کے واقعات سے بالکل مختلف بن گئی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ صورتحال مختلف بنادی گئی ہے ۔
بنگال کے ایک دواخانہ میں کسی مریض کے علاج میں لا پرواہی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے رشتہ داروں نے ڈاکٹرس پر حملہ کیا ۔ دو ڈاکٹرس زخمی ہوئے ہیں۔ یہ مذموم حرکت تھی اور ڈاکٹرس کو اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے احکام بھی واضح طور پر موجود ہیں۔ اس واقعہ پر ڈاکٹرس نے اپنے لئے سکیوریٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا ۔ تاہم کہا یہ جا رہا ہے کہ اس مسئلہ کو بی جے پی کی جانب سے ہوا دی گئی ہے ۔ ڈاکٹرس اپنے لئے سکیوریٹی کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں اور ریاستی حکومت کو اس تعلق سے غور کرنے اور ان کی تشویش و اندیشوں کو دور کرتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی تاہم قبل اس کے کہ ریاستی حکومت حرکت میں آتی اس ہڑتال کے استحصال کا آغاز ہوگیا اور بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے اسکو ہوا دیتے ہوئے ایک بڑے مسئلہ میں تبدیل کردیا گیا ہے جو نہیں کیا جانا چاہئے تھا ۔ بی جے پی ہو یا دوسری اپوزیشن جماعتیں ہوں انہیں ڈاکٹرس سے یقینی طور پر ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے اور حکومت سے ان کے مسائل کے تعلق سے نمائندگی بھی کی جانی چاہئے تاہم ہمدردی کے نام پر کسی طرح کا استحصال کرنے یا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ عوام کی صحت سے جڑا ہوا مسئلہ ہے ۔ اس میں ہر دو فریقین کو احتیاط سے اور انسانی پہلو کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کا معاملہ ہے وہ شعلہ بیان لیڈر ہیں ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ کسی بھی مخالفانہ آواز کو برداشت کرنے تیار نہیں ہیں اور اسے شدت سے ختم کرنا چاہتی ہیں ۔ یہ طریقہ کار ہر مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ۔ مسائل کو ان کی نوعیت اور حساسیت کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفین اور خاص طورپر بی جے پی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہئے ۔ انہیں ایسی روش اختیار کرنی چاہئے کہ مخالفین کو صورتحال کے استحصال کا موقع نہ مل سکے ۔ ڈاکٹرس سے ملاقات کرتے ہوئے ان سے بات چیت کی جانی چاہئے ‘ ان کی جو تشویش ہے اس کو سمجھتے ہوئے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ یہ ان کی بحیثیت چیف منسٹر ذمہ داری بھی ہے اور اسی میں ان کا سیاسی فائدہ بھی مضمر ہے ۔