بڑھتی نفرت کا ماحول دستور ِہند کو خطرہ

   

رام پنیانی
جیسے کہ ہم 2022ء میں داخل ہوچکے ہیں اور جیسے ہی اس سال میں داخل ہوئے ہم تمام نفرت پر مبنی تقاریر کا مشاہدہ کررہے ہیں اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس قسم کی تقاریر خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہیں جبکہ زعفرانی لباس میں ملبوس کئی مرد و خواتین ، اقلیتوں کے قتل عام پر زور دے رہے ہیں۔ اسی سال ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ہمارے ملک میں سماجی فضاء کو بگاڑنے کیلئے ’’ٹیک فوگ‘‘ جیسے اپلیکیشنس استعمال کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو نفرت پھیلانے میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان گروہوں کا کام برسرعام ذات پات کے نظام کو بڑھاوا دینا ہے اور جتنا ممکن ہوسکے، اقلیتوں کو بدنام کرنا ہے۔
ہم نے رام مندر جیسا مسئلہ بھی دیکھا جسے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے استحکام کیلئے پیدا کیا جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تشدد کی شکل میں نکلا۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ کاشی وشواناتھ راہداری، متھرا میں کرشنا مندر ایک بہت بڑے سیاسی و مذہبی مسئلہ کے طور پر ابھر آئے ہیں۔ یہ مسئلے سیاسی پس منظر میں چھائے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل اس قدر تیزی سے آگے بڑھائے جارہے ہیں جس سے بیف، مقدس گائے، نان ویج غذائیں اور لو جہاد جیسے خود ساختہ مسائل بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان مسائل کو بھی ایسے ہی تیزی سے آگے بڑھایا گیا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں حالیہ عرصہ کے دوران جس طرح مسلمانوں کو بدنام کیا گیا، اس طرح کبھی بھی نہیں کیا گیا تھا۔ چھوٹے بڑے مسئلہ پر مسلمانوں کو گھسیٹا جارہا ہے، انہیں بدنام کیا جارہا ہے، حد تو یہ ہے کہ عیسائی طبقہ جو ملک کی آبادی کا 2.3% ہے، ان مذہبی انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے، لیکن فرقہ پرستوں نے عیسائیوں سے عداوت مختلف طریقوں سے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مثال کے طور پر یہ فرقہ پرست کانوینٹ اسکولوں پر حملے کرتے ہیں، دعائیہ اجتماعات کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں، عیسائیوں کی سرگرمیوں کے خلاف پروپگنڈہ کرتے ہوئے الزام عائد کرتے ہیں کہ دباؤ کے ذریعہ یہ عیسائی ، ہندوؤں کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔ دھوکہ دہی اور لالچ کے ذریعہ بھولے بھالے ہندوؤں کو اپنا مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے معاشرے کے غریب اپنی بقاء کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مودی حکومت نے کورونا وائرس کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی جس انداز میں بناء سوچے سمجھے لاک ڈاؤن نافذ کیا، اس لاک ڈاؤن سے لاکھوں کی تعداد میں غریب مصائب و آلام کا شکار ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ ناقص نظم کے نتیجہ میں حکومت نے جو کورونا بحران سے نمٹنے کیلئے اپنایا تھا، ہزاروں کی تعداد میں نعشوں کو اجتماعی طور پر نذرآتش کیا گیا یا پھر دریائے گنگا میں سڑنے گلنے کیلئے پھینک دیا گیا۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ صنعتی گھرانوں کا ایک حلقہ ہماری قوم کی دولت لوٹ کر کسی اور ملک منتقل ہوگیا۔ ان لٹیروں نے ہندوستان کی قومی دولت کو لوٹا اور راہ فرار اختیار کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹیروں نے لوٹ کر راہ فرار اختیار کی اور جو صنعتی گھرانے ملک میں ہیں، ان کی دولت میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سماجی دولت پر ان کا کنٹرول بھی بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر صحت، تغذیہ، آزادیٔ اظہار خیال، مذہبی آزادی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے جو اشاریے منظر عام پر آرہے ہیں، اس میں ہمارے ملک کا درجہ گھٹتا ہی جارہا ہے۔ سیاسی سطح پر ہندوتواسیاست نہ صرف مرکز بلکہ کئی ریاستوں میں چھائی ہوئی ہے۔ یعنی مرکز اور بے شمار ریاستوں میں ہندوتوا کی سیاست کرنے والے اقتدار پر ہیں اور ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس بھی بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس نے پہلے ہی ریاست کے کئی شعبوں میں دراندازی کرلی ہے۔ اس نے اپنے ایجنڈہ کو بھی آگے بڑھایا ہے۔ یہ تنظیم کئی سو ذیلی تنظیموں کا جال بچھا چکی ہے اور اس کا مقصد سماج میں فرقہ وارانہ سوچ و فکر کو پھیلانا ہے، ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو اس طرح کے کاموں سے جڑی ہوئی ہیں اور وہ سماج کے محروم طبقات بالخصوص دلتوں، آدی واسیوں کی سماجی انجینئرنگ کے ذریعہ بھلائی کے خواہاں ہیں۔
ہندوستان میں فرقہ واریت
جہاں تک ہندوستان میں فرقہ واریت کا سوال ہے ، اس کا آغاز نوآبادیاتی دور سے ہوا جب تعلیم سے متعلق تبدیلیاں کی گئیں۔ نیا انتظامیہ، عصری صنعتیں اور حمل و نقل کے جدید ذرائع نے بڑے پیمانے پر سماجی تانے بانے کو تبدیل کرکے رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں نئے طبقے ابھر آئے۔ اُن میں صنعت کار، مزدور، عصری تعلیم سے آراستہ لوگ اور دیگر افراد شامل تھے۔ ان کی تنظیمیں تشکیل پانے لگیں اور ان تمام نے خود کو ہندوستانی قوم پرستی کا حمایتی قرار دیا۔ اُن تنظیموں کے اصل نمائندے بھگت سنگھ کی نوجوان بھارت سبھا ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ری پبلیکن پارٹی آف انڈیا اور گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، اینی بیسنٹ اور سردار بلدیو سنگھ کی انڈین نیشنل کانگریس تھے۔ ہندوستان میں دو بڑے عمل شروع ہوئے اور وہ بھی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ جن میں سماجی اصلاحات کی تبدیلیاں شامل ہیں۔ جہاں تک سماجی اصلاحات کا سوال ہے، تعلیم اس کا نقطہ عروج تھا۔ اسی طرح دلتوں کی تنظیم (جیوتی راؤ پھولے اور امبیڈکر) اور تعلیم نسواں (ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ) نے بھی سماجی ، تبدیلی کو یقینی بنایا ، واضح رہے کہ جیوتی راؤ پھولے اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی زیرقیادت دلتوں کی جدوجہد نے گاندھی جی کی چھوت چھات کے خلاف شروع کردہ ایک بڑی تحریک میں جگہ پائی۔ مہاتما گاندھی کی زیرقیادت قومی تحریک نے خواتین کو سماجی مقام عطا کرنے میں اہم کردار عطا کیا۔ سروجنی نائیڈو اور ارونا آصف علی بھی اُن چند شخصیتوں میں شامل تھیں جنہوں نے خواتین کی حالت ِ زار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائیں۔ اُس وقت زمینداروں ، راجہ رجواڑوں اور بادشاہوں کے قدیم حلقوں نے محسوس کیا کہ ان کی سماجی اور سیاسی طاقت گرتی جارہی ہے اور پھر اُن لوگوں نے اسلام خطرہ میں ہے یا ہندو ازم خطرہ میں ہے، کے نعرے لگانے شروع کردیئے، اس کے برعکس جو نئے طبقات اُبھر کر سامنے آئے ان لوگوں نے سکیولر اور جمہوری ہندوستان کا خواب دیکھا اور پرانے طبقات (مسلمان اور ہندو زمیندار ،نواب ، راجہ رجواڑے )، مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا جیسی جماعتوں یا تنظیموں کا نظریہ لے کر سامنے آئے۔ ساورکر نے جس کا تعلق ہندو مہا سبھا سے تھا، سب سے پہلے لفظ ’’ہندوتوا‘‘ سامنے لایا اور ہندو سبھا نے ہندو ملک یا ہندو راشٹر کا نعرہ لگایا، اس کے متوازی مسلم لیگ نے ایک مسلم ملک کی بات کی۔ ابتداء میں ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ جیسی تنظیموں کا حصہ صرف بادشاہ، نواب، زمیندار، راجہ راجواڑے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں بااثر اعلیٰ طبقہ یا ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو اور مسلم عناصر بھی ان تنظیموں میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد متوسط طبقہ بھی ان تنظیموں کے بہکاوے میں آگیا۔
’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ سے متعلق انگریزوں کی پالیسی
انگریزوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی اور اسی پالیسی کے نتیجہ میں ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اگرچہ انگریزوں نے ابتداء سے ہی یہ پالیسی اپنائی تھی، لیکن 1857ء میں پہلی جنگ آزادی کے بعد اس پالیسی پر بڑی شدت کے ساتھ عمل آوری کی گئی۔ فرقہ پرست عناصر نے انگریزوں کی پیش کردہ اس فرقہ وارانہ تاریخ کو اُچک لیا۔ اُس ورژن میں تاریخ، بادشاہوں اور راجاؤں کے مذہب کے ذریعہ پیش کی گئی۔ یہ تاریخ دراصل بادشاہوں اور راجاؤں کے اطراف گھومنے والی تاریخ تھی۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ بادشاہوں اور راجاؤں نے مذہب کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں بنائی، اتحاد بنایا اور مذہب کی بنیاد پر جنگ کی چنانچہ ہندو اور مسلم معاشروں میں پائے جانے والے فرقہ پرستوں نے تاریخ کے اس ورژن کو پسند کیا۔ مسلم فرقہ پرستوں نے تاریخ کو ایسے پیش کیا جیسے مسلمان حکمراں تھے اور جاتے ہوئے انگریز اقتدار ان کے حوالے کریں۔ جبکہ ہندو فرقہ پرست ، مسلمانوں کو بیرونی باشندے تصور کرتے تھے، ایسے بیرونی باشندے جنہوں نے ہندو ازم پر حملہ کیا۔ ان کی مندروں کو تباہ کردیا اور تشدد کے ذریعہ لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا۔ یہ دونوں ورژن متوازی اور ایک دوسرے کے متضاد تھے۔ گاندھی اور نہرو نے فرقہ پرستوں کے ورژن کے برعکس قومی اور معقول تاریخ پیش کی ۔ گاندھی نے اپنی کتاب ’’ہند سوراج‘‘ میں لکھا کہ ہندو اور مسلمان بادشاہوں اور راجاؤں نے اپنے اقتدار کیلئے حکمرانی کی اور ان کی رعایا میں دونوں مذاہب کے ماننے والے عوام تھے۔ نہرو نے بھی انہیں خطوط پر اپنی کتاب ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں ہندو ازم اور اسلام‘‘ پر بہت خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی اور لفظ ’’گنگا جمنی تہذیب‘‘ سے واقف کروایا اور ساتھ ہی ہندوستانی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی کو بھی قبول کرنا ہندوستان کی صدیوں قدیم روایت رہی ہے ، تاہم ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے کے مفادات کی تکمیل کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پھیلائی اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کردیا۔ ابتداء میں مسجد میں خنزیر کا گوشت ڈال کر اور مندر میں گائے کا گوشت ڈال کر مسائل پیدا کئے گئے۔ مساجد کے سامنے باجے بجا کر اور ’’خواتین کی عزت خطرہ میں ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر دنگا برپا کئے گئے۔مسلم لیگ نے ہندو اکثریتی ملک میں مسلمانوں کے حقوق کا مسلسل مطالبہ کیا۔ جبکہ ہندو فرقہ پرستوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور اس ملک میں مسلمان دوسرے درجہ پر ہیں۔ بہرحال آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا نے جو نظریہ پیش کیا تھا، اس نظریہ کی تباہ کاریاں آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیں جہاں دستور ہند کے اقدار کی برسرعام خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ہندوستانی دستور کو تبدیل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ تحریک آزادی کی اہمیت کو گھٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ گوڈسے کو عزت دی جارہی ہے ، غریبوں کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ، ان حالات میں ہمیں تحریک آزادی کے جذبہ کا احیاء کرنے کی ضرورت ہے۔