بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے

   

کورونا لاک ڈاؤن … کیا توسیع ضروری ہے ؟
دوا کیلئے ٹرمپ کی دھمکی … مودی ہوئے ڈھیر

رشیدالدین
انسانیت کی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب ایک وائرس نے دنیا کا نظام الٹ کر رکھ دیا۔ ترقی یافتہ ہو کہ ترقی پذیر حتیٰ کہ غریب ممالک بھی تمام ایک صف میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر ایک کا نشانہ اور ہدف ایک ادنیٰ سے ذرہ ہے جسے کورونا کا نام دیا گیا ہے۔ کئی ایسے ممالک جو اپنی طاقت کے بل پر دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے، آج ادویات کیلئے غریب ممالک سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ دنیا پر اپنی طاقت کا رعب جماکر سپر پاور اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے ممالک کے خوبصورت شہر انسانی نعشوں کے میدان اور قبرستان میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ورلڈ آرڈر کے نام پر کمزور ممالک کی معیشت اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے والے ممالک آج بے بس اور مجبور ہوچکے ہیں۔ کل تک دیگر ممالک تک حملہ کرتے ہوئے نعشوں کے ڈھیر لگانے والے اپنے لوگوں کی نعشوں کی گنتی میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے خود کو زمین کا مالک تصور کرلیا تھا۔ جس طرح فرعون نے انا ربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کیا تھا، آج کے سپر پاور خود کو موجودہ وقت کا خدا تصور کرنے لگے تھے ۔ انسان اپنے اور اس کائنات کے حقیقی خالق اور مالک کو بھلا بیٹھا تھا۔ ایسے میں ایک معمولی ذرہ کے ذریعہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک ہلکے سے جھٹکے کے ذریعہ اپنی طاقت اور وجود کا احساس دلایا۔ ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی کہ اس نظام ہستی و کائنات پر کنٹرول کرنے والی طاقت موجود ہے، تباہی و بربادی سے بچاؤ کا جب کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق خدا کی بارگاہ میں رجوع ہونے لگے۔ منکرین خدا کو بھی خدا کی یاد ستانے لگی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کسی قوم نے روگردانی کا رویہ اختیار کیا اور خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگی تو انہیں راہِ راست پر لانے ایک جھلک دکھائی گئی۔ وہ ممالک جنہوں نے ظلم اور بے قصوروں کی ہلاکتوں کو اپنا شعار بنالیا تھا، آج قدرتی آزمائش اور قہر خدا وندی کے گھیرے میں ہیں۔

سائنسی ترقی ان کے کوئی کام نہ آسکی اور ایک وائرس نے ہزاروں افراد کو موت کے بے رحم ہاتھوں میں ڈال دیا ۔ کورونا وائرس کے قہر سے دنیا جیسے تھم سی گئی ہے۔ چاند اور سیاروں پر قدم رکھ کر سائنسی ترقی کا دعویٰ کرنے والی ایک وائرس کے خاتمہ کی ویکسین یا دوا ایجاد نہیں کرسکے۔ کورونا وائرس نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ معاشی بحران سے گزرنے والے اس ملک کے لئے کورونا کا قہر معاشی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ۔ وائرس سے بچاؤ کے لئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ درست بھی ثابت ہوا لیکن اسی ٹھوس منصوبہ کے بغیر لاک ڈاؤن پر عمل آوری شروع کردی گئی ۔ لاکھوں ورکرس اور مزدور آبائی مقامات واپسی سے محروم ہیں۔ حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ غریب اور متوسط طبقات کا گزر بسر کیسے ہوگا۔ کیا غریبوں کو کورونا کے بجائے فاقہ کشی سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے ؟ کئی دن گزرنے کے بعد چاول اور رقمی امداد کا اعلان کیا گیا لیکن 50 فیصد غریبوں تک یہ پیاکج نہیں پہنچا۔ سماجی دوری برقرار رکھنے کیلئے سڑک ، ریل اور فضائی سفر کے راستے بند کردیئے گئے۔ ’’جو جہاں ہے وہیں رہے‘‘۔ وزیراعظم کے اس مشورہ نے لاکھوں افراد کو اپنے گھر اور گھر والوں سے دور کردیا ۔ جو لوگ لاک ڈاون کے سبب پھنسے ہوئے ہیں، انہیں کب تک غیر سرکاری اور رضاکارانہ تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گا ۔ رضاکارانہ تنظیمیں اور مخیر افراد کب تک غذا اور اناج کا انتظام کر پائیں گے ؟ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہر غریب اور بے گھر کا تحفظ کرے ؟ 21 روزہ لاک ڈاؤن نے ہر کسی کو بدحال کردیا ہے ۔ یقیناً لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی اور صورتحال قابو میں کہی جاسکتی ہے لیکن غریبوں کا خیال کئے بغیر طویل لاک ڈاؤن نے سماج کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے ۔ لاک ڈاون 14 اپریل تک برقرار رہے گا لیکن ابھی سے دو یا تین ہفتوں کی توسیع کے اشارے مل رہے ہیں ۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت کو تمام تر احتیاطی قدم اٹھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے لیکن اس کی آڑ میں من مانی اور مخالف عوام فیصلوں کا اختیار حاصل نہیں ۔ لاک ڈاؤن میں توسیع کی تجویز پر ماہرین صحت سوال اٹھا رہے ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کے لئے حکومت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ جنوری میں کورونا نے ملک پر دستک دی لیکن 13 مارچ تک بھی حکومت ہند خواب غفلت کا شکار رہی اور کہا گیا کہ ہندوستان میں ہیلت ایمرجنسی کا معاملہ نہیں ہے ۔ جب کورونا نے اپنے پیر پھیلادیئے تب جاکر 22 مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا گیا لیکن پارلیمنٹ کا سیشن 23 مارچ تک جاری رہا ۔ کورونا کی تباہی کے دوران مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت گراکر شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں بی جے پی حکومت قائم کی گئی ۔ الغرض کورونا سے ملک کو بچانے سے زیادہ بی جے پی کو تشکیل حکومت کی فکر تھی۔ پانی جب سر سے اونچا ہوگیا تو اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کے لئے اچانک 21 روزہ لاک ڈاون کا اعلان کردیا گیا ۔ لاک ڈاؤن کے سبب عوام کئی مسائل و مشکلات کا شکار ہیں لیکن ان کا حل تلاش کئے بغیر حکومت کو لاک ڈاؤن میں توسیع کی فکر ہے ۔ کیا ملک میں کورونا کی صورتحال واقعی اس قدر سنگین ہے کہ لاک ڈاؤن میں توسیع کے سواء کوئی راستہ نہیں ؟ کئی ماہرین کی رائے میں ہندوستان کے لئے 21 روزہ لاک ڈاؤن کافی ہوجائے گا ۔ توسیع کے ذریعہ حکومت صورتحال کو آخر سنگین کیوں دکھانا چاہتی ہے۔ عوام کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کے ذریعہ وائرس کا مقابلہ ممکن ہے، بجائے اس کے کہ عوام کو پست ہمت اور خوف و دہشت کا شکار کیا جائے جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔
ہندوستان کی آبادی کے اعتبار سے مریض اور اموات کی تعداد انتہائی کم ہے، صورتحال اتنی سنگین نہیں کہ مزید طویل آزمائش میں عوام کو مبتلا کیا جائے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر طویل لاک ڈاون کے بعد جب عوام کو نکلنے کی اجازت دی جائے گی تو ملک بھر میں افرا تفری کا ماحول رہے گا۔ لاک ڈاون کی توسیع کے حق میں مرکز نے چند ریاستوں کو پہلے میدان میں اتارا ہے ۔ 7 اپریل تک تلنگانہ کو کورونا سے پاک کرنے کا دعویٰ کرنے والے کے سی آر نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن میں توسیع کی سفارش کی ہے ۔

ماہرین کی تجویز ہے کہ 14 اپریل کے بعد ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں توسیع کے بجائے جن علاقوں میں کورونا کی صورتحال سنگین ہے ، وہاں توسیع دی جائے جبکہ جو علاقے کورونا سے پاک ہیں، وہاں نرمی دی جانی چاہئے ۔ جہاں تک تلنگانہ کا سوال ہے کورونا کو امپورٹیڈ وائرس کہا جاسکتا ہے۔ بیرونی ممالک یا دیگر ریاستوں سے آنے والے افراد کورونا کو اپنے ساتھ لائے ہیں جبکہ تلنگانہ میں از خود وائرس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ جہاں تک سماجی دوری برقرار رکھنے کا سوال ہے، وزیراعظم نریندر مودی کو اس معاملہ میں عالمی اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے ۔ وائرس تو جنوری میں ہندوستان آیا لیکن مودی کئی برسوں سے اپنی شریک حیات سے سماجی دوری برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ نے اینٹی ملیریا ادویات کے حصول کے لئے ہندوستان کو دھمکی دی اور چند گھنٹوں میں وزیراعظم نریندر مودی دھمکی کے آگے جھک گئے ۔ ملک میں ادویات کی کمی کو دیکھتے ہوئے برآمدات پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ٹرمپ نے ہندوستان کو دھمکی دیتے ہوئے سابق میں مودی سے دوستی کے وعدے ، معاہدے فراموش کردیئے ۔ امریکہ نے اپنی طاقت کے بل پر ہندوستان کو دھمکانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہندوستان میں ادویات کی قلت ہے تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو کیوں سربراہ کیا گیا۔ کیا ہندوستان میں کورونا کے علاج کی ویکسین دریافت ہوگئی کہ ہم اینٹی ملیریا ادویات کی امریکہ اور اسرائیل کو برآمدات کے لئے راضی ہوگئے ۔

مودی حکومت کا آخر کونسا فیصلہ درست کہا جائے گا ۔ ہندوستان میں ابھی کورونا کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے ۔ اگر صورتحال بگڑتی ہے تو پھر ادویات کی قلت کے لئے کون ذمہ دار ہوں گے ۔ ہندوستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کہاں گئی؟ موجودہ وقت کے سردار پٹیل کی ہمت اور حوصلہ کو کیا ہوگیا کہ انہوں نے ٹرمپ کی دھمکی کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ عوام کو 1971 ء کی یاد تازہ ہوگئی جب پاکستان سے جنگ کے دوران امریکہ نے ہندوستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر جنگ روکی نہیں گئی تو بحری بیڑے روانہ کئے جائیں گے ۔ اس وقت کی خاتون آہن وزیراعظم اندرا گاندھی نے امریکہ سے کہا تھا کہ ہندوستان کو امریکی بحری بیڑے سے نمٹنا اچھی طرح آتا ہے اور ہم دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ ایک خاتون وزیراعظم کے مقابلہ خود کو مرد آہن کہنے والے مودی کا خوف عوام میں موضوع بحث بن چکا ہے ۔ 1965 ء میں ہندوستانی افواج لاہور کے قریب پہنچ چکی تھی لیکن چین کی دھمکی کے بعد ہندوستان کو قدم واپس لینے پڑے اور تاشقند میں پاکستان سے امن معاہدہ کیا گیا۔ مودی حکومت نے اسرائیل اور امریکہ کو ادویات سربراہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ نظریاتی طور پر یہ تینوں عالمی سطح پر ایک مثلث ہیں۔ اگر انسانی ہمدردی کا جذبہ ہو تو مودی کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو بھی ادویات روانہ کرنا چاہئے ، جنہوں نے مودی کو اپنے باوقار اعزازات سے نوازا ہے۔ نامور شاعر حبیب جالب نے کہا ہے ؎
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے