بھگت بھی مودی کے خلاف ہونے لگے

   

ڈی کے سنگھ
کورونا وائرس کی وباء نے جہاں عوام کو مودی حکومت پر برہمی کا موقع دیا ہے ، وہیں وہ برہمی کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں، ایسے میں بی جے پی ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ اور وزراء بھی اب سوالات کرنے لگے ہیں کہ حکومت کیا کررہی ہے ۔ کورونا نے بی جے پی میں یہ تبدیلی تو ضرور لائی ہے۔ مثال کے طور پر جب کبھی بی جے پی ارکان اسمبلی یا ارکان پارلیمنٹ سے ان کے حلقوں میں درپیش چیلنجس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تب وہ یہی کہا کرتے تھے ’’ارے مودی جی ہیں نا‘‘ لیکن اب وہ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اترپردیش میں بھی جہاں کورونا وائرس نے حالت بہت خراب کردی ہے، چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کو شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ شاید مایوسی اور الجھن کے عالم میں اپنا سَر کھجا رہے ہوں۔ پچھلے ہفتہ یوگی آدتیہ ناتھ نے بریلی کا دورہ کیا جو مرکزی وزیر سنتوش کمار گنگوار کا پارلیمانی حلقہ ہے۔ ان کے دورہ کا مقصد دراصل وہاں کووڈ کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ دوسرے دن مسٹر سنتوش گنگوار کا مکتوب منظر عام پر آیا جو جمعرات کو لکھا گیا تھا۔ یہ مکتوب سوشیل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوا۔ یہ مکتوب دراصل یوگی آدتیہ ناتھ انتظامیہ کے خلاف عملاً ایک فرد جرم تھا۔ جس میں مرکزی وزیر لیبر و ایمپلائمنٹ نے خالی آکسیجن سلینڈرس کی قلت کی جانب توجہ دلائی تھی۔
مسٹر گنگوار، چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ پر تنقید کرنے والے بی جے پی کے پہلے لیڈر نہیں ہیں، بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بے شمار قائدین یوگی آدتیہ ناتھ کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور ان پر کووڈ۔ 19 سے نمٹنے میں بدانتظامی کے ارتکاب کا الزام بھی عائد کررہے ہیں۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ ہندوستان کورونا کی دوسری لہر کی زد میں آئے گا، لیکن حکومتوں کی جانب سے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کئے گئے، یہاں تک کہ آج بھی سارے ملک میں بستروں اور آکسیجن کی قلت پائی جاتی ہے اور پچھلے 10 دن کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے جس میں ہمارے دو درجن سے زائد دوست بھی شامل ہیں۔ آکسیجن کی قلت کے نتیجہ میں ان کی زندگیوں کا چراغ گل ہوا۔ یہی زمینی حقیقت ہے۔ حکومت کے خلاف جو بیانات آرہے ہیں، ان بیانات کو شاید کئی لوگ راہول گاندھی یا دوسرے اپوزیشن قائدین سے جوڑ دیں گے لیکن سب سے پہلا بیان مدھیہ پردیش کے اسمبلی حلقہ میہار کی نمائندگی کرنے والے بی جے پی رکن اسمبلی نارائن ترپاٹھی کا آیا جبکہ دوسرا بیان بی جے پی کے ہی رکن اسمبلی اروند گری نے دیا۔ جہاں تک ترپاٹھی کا سوال ہے، 2019ء میں ہی بی جے پی میں شامل ہوئے لیکن یہ کہہ کر وہ حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئے، ان کی تنقید کو زیادہ اہمیت نہ دینا، ٹھیک بات نہیں۔ ویسے بھی بی جے پی میں بے شمار قائدین ایسے ہیں جنہوں نے کانگریس سے انحراف کرتے ہوئے حکمراں جماعت میں شمولیت اختیار کی اور اس سلسلے میں ہم چیف منسٹر اروناچل پردیش پیما کھندو اور چیف منسٹر منی پور این بیرن سنگھ کی مثال پیش کرسکتے ہیں جبکہ اس فہرست میں آسام کے چیف منسٹر ہیمنتا بسوا سرما کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ترپاٹھی یا گیری ہی کھلے عام حکومتوں پر سوال اُٹھارہے ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں بنگلورو ساؤتھ کی نمائندگی کرنے والے تیجسوی سوریہ نے بھی حال ہی میں کرناٹک کی یدی یورپا حکومت کو شرمسار کیا ہے۔ انہوں نے بنگلور بلدیہ کی جانب سے چلائے جانے والے اسپتال میں رشوت ستانی اسکام کے بارے میں الزامات عائد کئے اور کہا کہ اس اسپتال میں رشوت لے کر بیڈس فراہم کئے جارہے ہیں۔ غرض بی جے پی کے بے شمار ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ حکمرانی میں پائے جانے والے نقائص پر روشنی ڈال رہے ہیں، خاص طور پر کووڈ بحران سے جس غلط انداز میں نمٹا جارہا ہے، اس کے بارے میں وہ اپنی پارٹی کے چیف منسٹروں سے سخت سوالات کررہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ان کے ووٹرس یا رائے دہندے اپنے یا اپنے رشتہ داروں کیلئے اسپتالوں میں بستروں اور آکسیجن سلینڈرس کے حصول کیلئے کسی سے درخواست کرتے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ حالات اس قدر سنگین ہوگئے ہیں کہ بی جے پی قائدین، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد خود کو بے بس محسوس کررہی ہے۔

اس کورونا وائرس وباء میں بی جے پی کے بے شمار ورکرس اور قائدین اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں، لیکن یہ ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ بڑی بے بسی سے انہیں مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ان کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں اور جب ان لیڈروں کو عوام کی مدد کی ضرورت ہوگی اور وہ عوام سے رجوع ہوں گے تب ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے گا، اس کا تصور کرکے ہی بی جے پی کے قانون سازوں پر ہیبت طاری ہورہی ہے۔

کون ناراض ہے اور کیوں ؟
دارالحکومت دہلی میں سازشی نظریات کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے زیراقتدار ریاستوں کے چیف منسٹروں کو بدنام کرنے کیلئے اور خاص طور پر مودی اور امیت شاہ کی بدنامی کیلئے اس طرح کے بیانات جاری کئے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ یدی یورپا ، مودی اور امیت شاہ کے پسندیدہ نہیں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے طاقتور و بااثر جنرل سیکریٹری بی ایل سنتوش جنہیں یدی یورپا کا کٹر مخالف سمجھا جاتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو پارٹی کی مرکزی قیادت نے کمل ناتھ کی زیرقیادت کانگریس حکومت کو بے دخل کردینے کی منظوری دی لیکن جب وزراء کے انتخاب کا مرحلہ آیا تب انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ جیسے ہی سیاسی حلقوں میں یہ اطلاعات گشت کرنے لگیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ ، وزیراعظم نریندر مودی کے جانشین اور دعویدار کے طور پر ابھر رہے ہیں تب اترپردیش میں اچانک بی جے پی ایم ایل ایز اور ایم پیز نے ان کے خلاف آوازیں اٹھانی شروع کردی۔ بی جے پی قائدین یوگی آدتیہ ناتھ کی دعویداری کو کمزور کرنے پہ کہنے لگے ہیں کہ اگر بی جے پی آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو یوگی کو ہی دوسری میعاد کیلئے بھی چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا جائے گا۔

دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بااعتماد و ساتھی اور سابق بیورو کریٹس اے کے شرما کو وزیراعظم کے پارلیمانی حلقہ وارناسی میں کووڈ مینجمنٹ کا نگران بنایا گیا ہے۔ شرما نے رکن اسمبلی بننے کیلئے رضاکارانہ طور پر سبکدوشی اختیار کی تھی۔ وزیراعظم کے حلقہ میں شرما کی تعیناتی کو بی جے پی قائدین یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سمجھ رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ گجرات اور ہریانہ میں ہورہا ہے۔ بی جے پی قائدین میں اپنی حکومتوں کو لے کر کافی برہمی پائی جاتی ہے۔