بہار کی سیاست میںڈرامہ بازیاں

   

دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے
آرزو کے نئے چراغ جلے
بہار کی سیاست میںڈرامہ بازیاں
بہار اسمبلی کے انتخابات ایسا لگتا ہے کہ انتہائی ڈرامائی ہونگے اور نتائج کے بعد ڈرامہ بازیوں میں مزید اضافہ ہوجائیگا ۔ جس وقت سے لوک جن شکتی پارٹی کے صدر چراغ پاسوان نے اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے اس وقت سے ہی ریاست کی سیاست میں ڈرامہ بازیاں شروع ہوچکی ہیں۔ چراغ پاسوان مسلسل بی جے پی کی کھلی حمایت کرتے ہوئے این ڈی اے کی حلیف جے ڈی یو اور چیف منسٹر نتیش کمار کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے جا رہے ہیں۔ چیف منسٹر نتیش کمار بھی بالواسطہ طور پر چراغ پاسوان کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان پر ووٹ کٹوانے کی کوشش کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ چراغ پاسوان بی جے پی سے دوری اختیار نہ کرنے اور ان کے دل میں نریندر مودی بسنے جیسے دعوے کر رہے ہیں لیکن بی جے پی کے قائدین ان کی اس طرح کی بیان بازیوں سے متاثر نہیں ہیں اور انہیں کھلے عام تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ چراغ پاسوان کی پارٹی کے بغیر بھی این ڈی اے اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائیگی اور لوک جن شکتی پارٹی انتخابات میں محض ووٹ کٹوانے تک محدود ہوکر رہ جائیگی ۔ موجودہ حالات میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ریاست میں این ڈی اے اتحاد بری طرح سے انتشار کا شکار ہے اور خود این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں میں اس تعلق سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ آیا چراغ پاسوان کا پھینکا ہوا پانسہ کہیں الٹا نہ پڑ جائے اور اس کا فائدہ اپوزیشن اتحاد آر جے ڈی ۔ کانگریس اور دوسروں کو نہ مل جائے ۔ جو صورتحال چراغ پاسوان کی بغاوت سے پیدا ہوئی ہے اس سے این ڈی اے قائدین کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ بی جے پی اس حقیقت سے واقف ہے کہ وہ نتیش کمار کو اعلانیہ طور پر چھوڑ نہیں سکتی اور انہیں کے امیج کے سہارے انتخابات لڑے جاسکتے ہیں۔ چراغ پاسوان بھلے ہی ایک خاطر خواہ ووٹ بینک رکھتے ہوں لیکن بی جے پی ان کے سہارے نتیش کمار کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرسکتی ۔ یہ پیام وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار کے ساتھ اسٹیج شئیر کرتے ہوئے واضح طور پر ایل جے پی کو دیدیا ہے ۔
یہ الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں کہ بی جے پی بہار میں دوہرا کھیل کھیل رہی ہے ۔ وہ ایک طرف تو نتیش کمار کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہے لیکن دوسری طرف وہ نتیش کمار کی اہمیت کو گھٹانے اور ان کے سیاسی وزن کو کم کرنے کیلئے چراغ پاسوان کو استعمال کر رہی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میں اگر این ڈی اے کی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ بی جے پی زیر قیادت ہو ۔ بی جے پی نے حالانکہ یہ اعلان کردیا ہے کہ اگر وہ واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھرتی ہے تب بھی نتیش کمار ہی کو چیف منسٹر بنایا جائیگا ۔ یہی اعلان گذشتہ اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو نے کیا تھا اور انہوں نے اپنا وعدہ بھی پورا کیا تھا ۔ راشٹریہ جنتادل سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی اس کے باوجود نتیش کمار کو چیف منسٹر بنایا گیا اور بعد میں نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن تھام پر پچھلے دروازے سے اسے اقتدار میں حصہ دار بنادیا تھا ۔ اب بی جے پی نتیش کمار کو اعلانیہ طور پر طلاق دینے کی بجائے چراغ پاسوان کا سہارا لے رہی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی اس طرح کے الزامات سے انکار کر رہی ہے لیکن سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بی جے پی اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ کسی بھی حلیف کو ٹھکانے لگاسکتی ہے اور کسی بھی مخالف جماعت کو اپنا دوست بناسکتی ہے ۔ بی جے پی کے پاس اقتدار کے معاملہ میں کسی طرح کے نظریات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ صرف کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا یا پھر پچھلے دروازے ہی سے صحیح اس میں حصہ داری حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
بہار کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اسمبلی انتخابات کے نتائج انتہائی اہمیت کے حامل ہونگے ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نتائج کے بعد صورتحال کے حساب سے بی جے پی نتیش کمار کو کھلے عام ترک کردے اور چراغ پاسوان کا دامن تھام لے ۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ چراغ پاسوان بی جے پی کی مسلسل تنقیدوں کا بہانہ کرتے ہوئے کسی اور علاقائی جماعت کا دامن تھامنے میں عافیت سمجھیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ اس اتحاد کو ریاست میں اقتدار حاصل ہوگا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کی ڈرامائی صورتحال اب ہے وہ نتائج کے بعد مزید ڈرامائی ہوگی اور آج کی حلیف جماعتیں کل ایک دوسری کی مخالف اور آج کی مخالف جماعتیں کل ایک دوسرے کی دوست بن سکتی ہیں۔