بہانہ کورونا کمانا سیکھو

   

محمد مصطفی علی سروری
کرونا وائرس کے سبب صرف ہمارے ملک ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ناگہانی حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ دن میں لاک ڈائون اور رات میں کرفیو کے نفاذ نے خاص کر عوام کی معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ شہر حیدرآباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہیلپنگ ہینڈ فائونڈیشن نے گذشتہ دنوں ایک رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق شہر حیدرآباد میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی اکثریت کرونا وائرس کے سبب لاگو کیے جانے والے لاک ڈائون سے بری طرح متاثر ہے۔ اپنی یومیہ اجرت اور کمائی سے محروم ہونے والوں کی اکثریت فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کی امداد پر منحصر ہیں۔ لیکن گذشتہ ایک مہینے سے جاری لاک ڈائون کے جلد ختم ہونے کے بظاہر آثار کم نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کے وسائل کب تک کارآمد ثابت ہوں گے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسری اہم بات کہ لاک ڈائون کی برخواستگی کے بعد فوری طور پر آمدنی کے ذرائع اور مالی وسائل پیدا ہونے کے امکانات موہوم ہیں۔
قارئین ذرا غور کریں کہ ناگہانی حالات اور معاشی پریشانیاں کسی ایک طبقے، علاقے یا مذہب کے لوگوں تک محدود نہیں ہیں۔ لیکن کونسا طبقہ اور کونسے علاقے اور مذہب کے لوگ ان پریشانیوں سے بہ آسانی باہر نکل پائیں گے۔ اس کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ایک اہم بات کہ جو لوگ اپنے مسائل کا صحیح تجزیہ کرتے ہیں وہی اپنے محدود مسائل کا موثر استعمال کرسکتے ہیں۔

پریم مورتی پانڈے کا تعلق اترپردیش کے علاقے مبارکپور کوٹوا سے ہے اور اپنی نوکری کے لیے اپنے گائوں سے ایک ہزار چار سو کیلو میٹر دور مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں مقیم تھا۔ جب 25؍ مارچ 2020ء کو نریندر مودی حکومت نے کرونا وائرس کی وباء کے پھیلائو کوروکنے کے لیے ملک گیر سطح پر لاک ڈائون کا اعلان کردیا اس لاک ڈائون کے تحت بس، ٹرین اور ایئر ٹریفک بھی بند کردی گئی۔ پریم مورتی، ممبئی ایئرپورٹ پر کام کرتا تھا۔ لاک ڈائون کے سبب وہ بھی اپنے گھر واقع آزاد نگر اندھیری ایسٹ میں بند تھا۔ اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع 26؍ اپریل کی خبر کے مطابق لاک ڈائون کے ابتدائی اکیس دن ممبئی میں گذارنے کے دوران پریم مورتی مسلسل سوچتا رہا کہ وہ کیسے اپنے گھر واپس جاسکتا ہے۔ حالانکہ بس، ٹرین اور طیارے سب بند تھے۔ سوچتے سوچتے اس کو خیال آیا کہ ایک طریقہ ہے جس سے وہ اپنے گھر اترپردیش واپس جاسکتا ہے۔ اس طریقے میں اس کو اشیائے ضروریہ کی حمل و نقل کرنے والے ٹرکوں سے لفٹ لینے کے بارے میں خیال آیا لیکن ایسا کرنے میں بھی گھر پہنچنے سے پہلے ہی پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔ اس لیے پریم مورتی نے اشیائے ضروریہ کا خود کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ قارئین کاروبار میں ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ جو خطرہ مول لینے تیار رہتا ہے وہی منافع بھی کماسکتا ہے۔

قارئین پریم مورتی اپنے گھر جانا چاہتا تھا اور لاک ڈائون کے باوجود بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ لاک ڈائون کے باعث بہت سارے کاروباری حضرات اپنے دوکانات کے بند ہونے کے باعث پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ لیکن بعض نوجوان ہیں جو اس لاک ڈائون کے باوجود بھی نہ تو کسی کے آگے امداد کے لیے ہاتھ پھیلانا گوارہ کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری امداد کے منتظر ہیں۔ ایسا ہی ایک نوجوان ہے جو واٹس ایپ کے ذریعہ ملنے والے آرڈرس کی گھروں تک سپلائی کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کر رہا تھا۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس نوجوان نے بتلایا کہ جس دوکان پر وہ کام کرتا ہے وہاں پر مالک عین رمضان سے پہلے منگوائے جانے والے اسٹاک کو لے کر پریشان تھا تو اس نے مالک سے وہی اسٹاک خرید کر واٹس ایپ کے ذریعہ لوگوں کے آرڈر وصول کر نے کے بعد ان کے گھروں تک چیزوں کو ڈیلیور کر کے پیسے کما رہا ہے۔ اس کے مطابق قرآن پاک کے پارے، جائے نماز، ٹوپی اور اسکارف لوگ خریدنے کے لیے دلچسپی لے رہے ہیں اور فون پر آرڈرس بھی مل رہے ہیں۔

کرناٹک کے چامراج ضلع کے ودارہائی گائوں میں رہنے والے 50 سالہ کسان کناین سبرامنیم لاک ڈائون سے بڑا پریشان تھا کیونکہ اس نے اپنے ساڑے تین ایکڑ کے کھیتوں میں گوبھی کی ترکاری اگائی تھی۔ اس کو امید تھی کہ گوبھی کی فصل سے اس کو خوب منافع ہوگا۔ مگر قسمت ایسی تھی کہ جب اس کے کھیتوں میں گوبھی کی فصل تیار ہوئی اس وقت بظاہر اس کے لیے کوئی خریدار نہیں تھے۔ پریشان حال سبرامنیم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنے پرانے گاہکوں کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے کھیت کی فصل کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر شیئر کردی کیونکہ 100 ٹن گوبھی کو وہ پرانے گاہکوں کے انتظار میں رکھ کر خراب ہونے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس نے 27؍ اپریل کی ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق 18؍ اپریل کو سبرامنیم نے اپنے ٹویٹر پر گوبھی کی پیداوار کے متعلق ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ یہ تیار ہے اور کوئی بھی اس کو خرید سکتا ہے۔ ٹویٹر کے 30ہزار صارفین نے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیا۔ اور 10 ہزار صارفین نے اس کو دوبارہ شیئر کیا۔ چند ہی دنوں میں بنگلور کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کسان کو فون کر کے اس سے 12 ٹن گوبھی خرید لی تاکہ لاک ڈائون کے دوران ضرورت مندوں میں تقسیم کرسکے۔ صرف سوشیل میڈیا کے توسط سے چند دنوں میں ہی سبرامنیم نے 42 ٹن گوبھی فروخت کردی۔
سمیر احمد کا تعلق تالاب کٹہ سے ہے۔ وہ بنیادی طور پر شادی خانوں میں ڈیکوریشن کا کام کرتا ہے اور رمضان میں جب شادی خانے بند ہوتے ہیں تو سمیر حلیم بنانے کا کام کرتا تھا۔ مگر اس سال رمضان میں لاک ڈائون ہونے کے سبب سمیر احمد حالات کا رونا روتے ہوئے نہیں بیٹھا۔ سمیر نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر فروٹ بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔ سمیر کے ہاں اس کام کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ سمیر نے اپنے رشتہ داروں کے پاس سے 3 ہزار روپئے لیے اور اپنا کاروبار شروع کیا۔ ایسے ہی شیخ پاشاہ بھوانی نگر کا رہنے والا ہے وہ ایک لکڑی کی ٹال میں کام کرتا تھا۔ لاک ڈائون میں بے کار رہنے کے بجائے اس نے ترکاری فروخت کرنا شروع کردی۔ اس کے مطابق لوگوں نے راشن کے چاول اور کچھ پیسے تو دیئے مگر اس سے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔

اخبار تلنگانہ ٹوڈے میں 29؍ اپریل کو شائع ہوئی آصف یار خان کی رپورٹ کے مطابق شیخ پاشاہ نے بتلایا کہ خاص کر رمضان میں وہ جلانے کی لکڑی کا خوب کاروبار کرتا تھا۔ اس مرتبہ خالی بیٹھے رہنے کے بجائے اس نے ترکاری بیچنا شروع کیا۔قارئین جتنا اہم کام ضرورت مندوں کی مالی مدد کرنا ہے اتنا ہی اہم کام ضرورت مندوں کو مال کمانے کے طریقوں سے واقف کروانا بھی ہے۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں تو حلال طریقے سے مال کمانے اور تجارت کرنے کے ہر موقع سے استفادہ کرنا ہوگا۔افسوس ہوتا ہے جب لاک ڈائون کے باوجود اور معاشی مسائل کے سنگین ہونے کے باوجود نوجوان رمضان میں حلیم کھانے کہاں سے خریداری کرسکتے ہیں کی تلاش کرتے ہیں۔ سگریٹ اور گٹکھا کہاں سے مل سکتا ہے پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن محنت کے لیے تیار نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کرونا وباء سے سارے عالم کی بالخصوص ہم ہندوستانیوں کی حفاظت فرمائے اور ہم مسلمانوں کو محنت کے راستے پر چل کر اللہ رب العزت سے مدد مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ساتھ اللہ تعالیٰ اس کرونا وباء کے بہانے ہی صحیح امت مسلمہ کو اکل حلال کی اہمیت سمجھا دے او رحلال رزق کے تمام دروازے کھول دے اور ہمارے بند ذہن کشادہ فرما۔ تاکہ ہم اپنے بارے میں صحیح سے سونچنے والے بن جائیں۔ (آمین۔ یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com