بی جے پی حکومت ہندوستانی جمہوریت اور دستور کیلئے خطرہ

   

رام پنیانی
حکمراں بی جے پی کے قائدین بار بار اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی ( بی جے پی ) اور اس کے اتحادی ( بی جے پی +370 اتحادی30 ) چار سو سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کریں گے یعنی بی جے پی قائدین ’ اب کی بار 400 سے پار‘ کا نعرہ لگارہے ہیں۔ یہ لوگ کسی تجزیہ کی بنیاد پر یہ دعویٰ نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ خالصتاً سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے ایک پروپگنڈہ ہے۔ اس پروپگنڈہ کے ذریعہ وہ بڑی ہشیاری بلکہ مکاری کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ بی جے پی عام انتخابات 2024 میں این ڈی اے میں شامل اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر 400 سے زیادہ حلقوں میں کامیابی حاصل کرے گی۔’ اب کی بار چارسو سے پار ‘ کے دعویٰ کو حق بجانب اور منصفانہ قرار دینے کیلئے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڈے اس عدد (400) کی ضرورت سے متعلق وضاحت بھی کرچکے ہیں۔ مسٹر اننت کمار ہیگڈے کے مطابق بی جے پی دستور میں تبدیلی خواہاں ہے اور اسے دستور میں تبدیلی و ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر ہیگڈے کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو دستور بدلنے کیلئے 400 نشستوں کی ضرورت ہے۔ اننت کمار ہیگڈے نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ کہا کہ ملک کی سب سے قدیم ترین اور تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والی کانگریس نے دستور میں غیر ضروری چیزیں بھر کر دستور کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔ مسٹر اننت کمار کا اصل کہنا یہ تھا کہ کانگریس نے دستور میں سیکولرازم اور سوشلزم جیسے الفاظ شامل کئے خاص طور پر کانگریس نے ایسے قوانین متعارف کروائے جس کا مقصد صرف اور صرف ہندو معاشرہ کو دبانا تھا، اگر دستور میں شامل کردہ ان تمام چیزوں کو بدلنا ہو تو پھر بی جے پی کی جو موجودہ اکثریت ( پارلیمنٹ میں جو بی جے پی ارکان کی تعداد ہے ) اس کے ساتھ ناممکن ہے۔ بی جے پی نے کرناٹک سے تعلق رکھنے والے موجودہ رکن پارلیمنٹ کے بیان سے خود کو دور کرلیا اور ایسا تاثر دیا جیسے وہ حقیقت میں اس قسم کے بیان کو منظور نہیں کرتی۔ بہرحال بعض میڈیا رپورٹ؍ خبروں میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کے باعث اننت کمار کو ٹکٹ سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی حکومت میں جب وہ مرکزی وزیر تھے انہیں پارٹی نے 2019 کے عام انتخابات میں اپنا امیدوار بنایا تھا۔ دوسری طرف راہول گاندھی ایم پی اور دیگر کانگریس قائدین کا احساس ہے کہ اننت کمار ہیگڈے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ دراصل بی جے پی کے ایجنڈہ اور اس کے منصوبہ کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کانگریس قائدین کے مطابق بی جے پی رکن پارلیمنٹ کا یہ بیان کہ دستور میں تبدیلی کیلئے بی جے پی کو 400 نشستوں پر کامیابی کی ضرورت ہے حقیقت میںنریندر مودی اور ان کے سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈہ کا برسرِ عام اعلان ہے۔ نریندر مودی اور بی جے پی کا قطعی مقصد بابا صاحب امبیڈکر کے بنائے گئے دستور کو تباہ کرنا ہے۔ بی جے پی والے دیکھا جائے تو اصل میں انصاف،مساوات، شہری حقوق اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کانگریس رکن پارلیمنٹ نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کیا جو انہوں نے ہندی زبان میں پوسٹ کیا ہے۔
کانگریس کے سابق صدر نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ معاشرہ کو تقسیم کرکے، اظہارِ خیال کی آزادی کو ختم کرکے اور آزادانہ اداروں کو مفلوج بناتے ہوئے بی جے پی ہندوستان جیسی ایک عظیم جمہوریت کو کوتاہ ذہن ، آمریت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے یہ لوگ اپوزیشن ( حزب مخالف ) کو پوری طرح ختم کرنے کی سازشیں رچ رہے ہیں۔ بی جے پی کے پاس ہماری جیوری( اقدار ) ہمارے دستور کے اقدار، مساوات کو کمزور کرنے انہیں خطرہ میں ڈالنے کی دوہری حکمت عملی ہے۔ اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے ابتداء سے ہی دستور ہند کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ جس وقت دستور ہند وجود میں آیا اس کے بعد آر ایس ایس کے غیر سرکاری ترجمان ’ آرگنائزر‘ نے کچھ یوں لکھا ’’ ہمارے دستورمیں قدیم بھارت کی منفرد دستوری ترقی کا کوئی حوالہ نہیں ہے، آج تک اس قدیم دستور کے قوانین جیسا کہ منوسمرتی میں بیان کیا گیا ہے دنیا بھر کی تعریف و ستائش کا باعث ہے اور خود بخود اس کی اطاعت اور موافقت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ہمارے دستوری پنڈتوں(ماہرین ) کیلئے اس کے کوئی معنیٰ و مطالب نہیں ہیں۔
جب بی جے پی این ڈی اے کی حیثیت سے 1998 میں اقتدار پر آئی اس نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ دستور کا از سرِ نو جائزہ لینے ایک کمیشن کا تقرر کیا گیا۔ کمیشن ( وینکٹ چلیا کمیشن ) کی رپورٹ پر عمل آوری نہیں کی جاسکی کیونکہ اُس وقت ہمارے دستور میں کسی قسم کی بھی تبدیلی اور اس سے چھیڑ چھاڑ کی شدت سے مخالفت ہونے لگی تھی لیکن 2014 میں بی جے پی نے جب مرکز میں اقتدار سنبھالا اس نے وقفہ وقفہ سے ہمارے دستور کی تمہید کو سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ حذف کرتے ہوئے استعمال کیا، اس سے پہلے بھی جب سدرشن 2000 میں آر ایس ایس کے سربراہ مقرر کئے گئے انہوں نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے صاف صاف طور پر کہا تھا کہ ہمارے ملک کا دستور مغربی اقدار پر مبنی ہے، ایسے میں اُسے ( دستور ) کوہندوستان کی مقدس کتابوں کی بنیاد پر تبدیل کیا جانا چاہیئے۔
سدرشن نے یہ بھی کہا تھا کہ دستور عوام کیلئے کچھ کام کا نہیں ہے کیونکہ وہ تو قانون حکومت ہند کی1935 پر مبنی ہے، ان حالات میں دستور کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے لڑنے یا آواز اُٹھانے سے کسی بھی طرح شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا خود وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ویویک دیو براکے نے بھی دستور میں ترمیم کی بات کی تھی۔ 15 اگسٹ 2023 کولائنومنٹ میں شائع اپنے ایک مضمون میں بھی انہوں نے دستور میں تبدیلی پر زور دیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقفہ وقفہ سے بی جے پی حکومت اور اس کے تنظیمی ڈھانچہ سے وابستہ اہم شخصیتیں اور قائدین دستور ہند میں تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں اور ان باتوں کو میڈیا میں ایک منصوبہ بند انداز میں اُچھالا جاتا ہے۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب بھی بی جے پی حکومت اور پارٹی میں کوئی دستور میں تبدیلی کی بات کرتا ہے تو بی جے پی حکومت فوری خود کو اس بیان سے لاتعلق کرلیتی ہے اور اس کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ بیان فلاں وزیر، فلاں ایم پی اور فلاں لیڈر کا اپنا شخصی بیان ہے حکومت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی گذشتہ دس برسوں سے اقتدار میں ہے، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ہندوستانی دستور کے اعلیٰ اور اہم اقدار جمہوریت اور مساوات کے ساتھ کیا کیا؟
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے ایک جمہوری ریاست کے ستون سمجھے جانے والے تمام دستوری اداروں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، سی بی آئی، آئی ٹی، الیکشن کمیشن، مقننہ؍ عاملہ کے کنٹرول میں ہیں اور مقننہ نے خود کو ایک شخص تک محدود کردیا ہے اور تمام تر توجہ ایک شخص پر ہی مرکوز کردی گئی ، ہر چیز اسی کے اطراف گھوم پھر رہی ہے۔ عدلیہ بھی مختلف سطحوں پر مختلف میکانزم کے ذریعہ کمزور کردی گئی جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں‘ جس کی ایک بدترین مثال اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کو گذشتہ 3 برسوں سے جیل میں رکھا جانا ہے۔ عدالتیںضمانت سے متعلق عمر خالد کی درخواست کی سماعت سے مسلسل انکار کررہی ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں اظہار خیال کی آزادی بھی دفن کردی گئی۔ قومی دھارے کا جو میڈیا ہے وہ پوری طرح موافق حکومت اور صنعتی گھرانوں کے کنٹرول میں جکڑا ہواہے، وہ حقیقت میں حکومت کی آواز اور اس کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چیانلس اور اخبارات گودی میڈیا کے کردار میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف ہیں‘ آزاد آوازیں محدود ہیں اس کے باوجود وہ اپنے خیالات اور اپنی رائے کو عوام تک پہنچانے کی بڑی جر￿ت کے ساتھ کوشش کررہی ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جمہوری معاشرہ کا سب سے بڑا ستون سمجھے جانے والی آزادی اظہار خیال کو بالکلیہ طور پر نظر انداز کردیا گیا۔ مذہبی آزادی بھی شدید متاثر کردی گئی، کئی عالمی اشاریوں میں اس معاملہ میں ہمارے ملک کا مقام گرتا ہی جارہا ہے۔ جمہوریت کے اعشاریہ میں ہندوستان کو104 واں درجہ دیا گیا ہے یعنی ہم نائیجریا اور آئیوری کوسٹ جیسے ملکوں کے درمیان آگئے ہیں۔ پچھلے دس برسوں کے دوران یہی سب کچھ تو ہوا ہے۔ عملی طور پر جمہوری آزادی کو کمزور کردیا گیا۔ ملک کے سنگین حالات کا اندازہ ایل کے اڈوانی کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان غیر معلنہ ایمرجنسی میں جارہا ہے۔