بی جے پی شاید حجاب سے یوپی الیکشن جیتنے کی خواہاں!

,

   

کرناٹک :اسکولس ، کالجس 3 یوم کیلئے بند
حجاب تنازعہ پرتشدد ، کئی اضلاع متاثر
امن برقرار رکھنے ہائیکورٹ کی اپیل
کرناٹک کے بعد مدھیہ پردیش کی باری

نئی دہلی ؍ بنگلورو : بی جے پی اور اُس کی حکمرانی والی حکومتوں نے شاید عوام اور قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ نہ صرف آزاد ہند کی پوری تاریخ بلکہ تقریباً 1450 سال سے حجاب یا پردہ دنیا میں کوئی نئی بات نہیں۔ ہاں مگر وہاں وہاں حجاب یا لڑکیوں اور خواتین کے پردے کو موضوع یا متنازعہ بنایا گیا جہاں مفادات حاصلہ کا معاملہ درپیش ہوا۔ ہم یوروپ کے کئی ملکوں میں حجاب اور برقعے کو متنازعہ بناکر اِن پر پابندی کی خبریں سنے ہیں اور پڑھتے رہے ہیں۔ کرناٹک کو بی جے پی اور اُس کی حکومت نے شاید اترپردیش میں پارٹی کی دگرگوں صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کرناٹک میں چیف منسٹر بسواراج بومئی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے کئی ہفتوں سے جاری حجاب کے مسئلہ کو طول پکڑنے اور بڑا تنازعہ بننے کا موقع دیا ہے۔ ورنہ باحجاب یا برقعہ پہن کر لڑکیوں اور خواتین کا تعلیمی اداروں میں جانا پورے ملک کے لئے کیا نئی بات ہے؟ ریاست کے ضلع اڈپی میں پری یونیورسٹی گورنمنٹ کالج سے بکھیڑا کھڑا کیا گیا اور انتظامیہ نے مسلم طالبات کو کیمپس میں باحجاب رہنے سے منع کیا۔ باحجاب رہنا یا برقعہ پہننا بالکلیہ شخصی معاملہ ہے اور شخصی آزادی کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ تاہم ، بومئی حکومت نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے مسئلہ کو اڈپی میں ہی ختم نہیں کیا بلکہ اِسے کئی اضلاع میں پھیلادیا گیا ہے جہاں مظاہرے پرتشدد ہوچکے ہیں۔ ہندوتوا تنظیمیں باضابطہ میدان میں اُتر چکی ہیں اور حجاب کے مقابل بھگوا اسکارف لگاکر ہندو نوجوان سڑکوں پر اُتر آئے ہیں۔ منگل کو دلیر مسلم لڑکی مسکان خان نے یقینا اپنی برادری کے لئے سبق اور عبرت کا کام کیا جب وہ کالج کے لئے تن تنہا نکل پڑی حالانکہ راستہ میں بڑی تعداد میں ہندو جمع تھے اور حجاب کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ مسکان نے اپنے قدم نہیں روکے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہی۔ یقینا اِس نوجوان لڑکی نے اپنی برادری کے نوجوان لڑکوں اور مردوں کے لئے مثال پیش کی ہے کہ آج کے بی جے پی زیرقیادت ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندوتوا عناصر اور شریعت کے احکام کو غیر ضروری متنازعہ بنانے کے خلاف کس طرح احتجاج کرنا چاہئے۔ اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کا پہلا مرحلہ ختم ہوچکا اور جمعرات کو پولنگ ہونے والی ہے۔ نہ صرف 2020 ء میں کورونا وائرس کی وباء کے بعد سے بلکہ ابتدائی مہینوں سے ہی یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ زیرقیادت بی جے پی حکومت ہر محاذ پر جھوٹی ، دھوکہ باز ، مکار اور ناکام رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اسمبلی الیکشن 2022ء بی جے پی کیلئے تلخ تجربہ ثابت ہونے والا ہے۔ چنانچہ مرکزی بی جے پی قیادت نے بعض قائدین اور پارٹیوں کو ہمنوا بنالیا تاکہ ووٹ تقسیم کئے جاسکیں بلکہ اپنی حکمرانی والی ریاستوں میں بھی فرقہ پرستانہ ماحول پیدا کرتے ہوئے ہندو ووٹوں کو مضبوط کرنے کی کھلی کوشش شروع کردی ہے، ورنہ حجاب یا پردہ جیسے دائمی شرعی عمل کو بڑا تنازعہ بنانا کیا معنی رکھتا ہے۔ منگل کو یہ تنازعہ کرناٹک سے جنوب میں پڈوچیری اور وسط ہندوستان میں مدھیہ پردیش تک پھیل گیا ہے۔ بھوپال میں ریاستی وزیر اسکولی تعلیم اندر سنگھ پرمار نے کہاکہ اسکولوں میں حجاب کی اجازت نہ دی جائے گی بلکہ سب کے لئے ڈریس کوڈ پر عمل ہوگا۔ منگل کو چیف منسٹر بومئی نے احکام جاری کئے کہ ریاست میں تمام ہائی اسکولس اور کالجس آئندہ 3 یوم کے لئے بند کردیئے جائیں۔ حجاب تنازعہ کے پس منظر میں چیف منسٹر نے تمام متعلقہ لوگوں سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ اُنھوں نے عوام سے امن اور بھائی چارہ برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی۔ دریں اثناء کرناٹک کے ایک کالج کیمپس میں حجاب اور بھگوا اسکارف پر پابندی کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا۔ ریاست کے متعدد اضلاع سے احتجاج اور پتھراؤ کی اطلاع ملی ہے۔ کئی مقامات پر اِس تنازعہ نے تشدد کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہندو نوجوان جئے شری رام کے نعرے لگارہے ہیں اور اُن کے مقابل مسلم طالبات بالخصوص مسکان نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ کرناٹک ہائیکورٹ نے حجاب کے مسئلہ پر چند درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے آج کہاکہ وہ جذبات کوالگ رکھتے ہوئے آئین کی پیروی کرے گی۔سینئر وکیل دیودت کامت نے عدالت میں دلیل پیش کی کہ حجاب اسلام کا حصہ ہے اور اِسے آرٹیکل 19(1)(A) کے تحت محفوظ حق ہے۔ ڈریس کوڈ پر قرآن کے سورہ نور کی آیت 31 پڑھتے ہوئے کامت نے کہاکہ یہ لازمی ہے کہ گردن کا کھلا حصہ شوہر کے علاوہ کسی اور کو دکھایا نہ جائے۔ اُنھوں نے بتایا کہ کئی عدالتی فیصلے میں قرآن پاک کی ہدایتوں کی تشریح کی ہے۔