بنگلورو۔ بی جے پی کو چہارشنبہ کے روز اس وقت پشیمانی کا سامناکر نا پڑا جب کانگریس ‘ جے ڈی (ایس) اتحاد حکومت میں رخنہ پیدا کرنے کی اس کی کوششیں ناکام ہوتی دیکھائی دینے لگے ‘ کیونکہ کانگریس کے ناراض ایم ایل اے آخری لمحات میں اپنی بغاوت ترک کرتے ہوئے اپوزیشن کے ’’ اپریشن لوٹس‘‘ کے جھانسے میں نہیں ائے۔
پچھلے سات مہینوں میںیہ بی جے پی کی کرناٹک میں حکومت بنانے کے متعلق یہ دوسرا ناکام کوشش رہی ۔ بی جے پی کے پاس یہ منصوبہ تھا کہ وہ کانگریس نے 12سے 15اراکین اسمبلی کو استعفیٰ دلائے گی اور حکومت کی تشکیل دیدے گی ۔
کانگریس کے اراکین اسمبلی کی ممبئی او ردوسرے مقامات پر منتقلی کے بعد پارٹی نے اپنے اراکین اسمبلی کو گرگاؤں کے قریب ایک ہوٹل میں پچھلے کچھ دنوں تک چھپا کر رکھا تھا۔
درکارکانگریس اراکین اسمبلی کے عدم استعفیٰ کا احساس ہوجانے کے بعد بی جے پی کے ریاستی صدر بی ایس یدیوراپا نے ہوٹل میں موجود اراکین اسمبلی سے کہاکہ اپریشن لوٹس کو منسوخ کیاجاتا ہے۔
یدیوراپا نے ان ایم ایل ایز سے کہاکہ’’ پارٹی ہائی کمان نے چاہتی ہے کہ کانگریس اور جے ڈی(ایس) کے سولہ سے ایم ایل ایز کا استعفیٰ دیں ‘ وہ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔
ہفتہ تک بھی کانگریس کے بارہ اراکین اسمبلی نے بازو ہٹنے کا بھروسہ دلایاتھا ‘ مگر انہوں نے اپنا موقف تبدیل کردیا‘لہذا ہم نے اپریشن کو منسوخ کردیا ہے‘‘۔ حالیہ تبدیل کو شکست فاش کرنے کے لئے سابق چیف منسٹر سدا رامیہ نے اپنی طاقت او راتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لئے جمعہ کے روز لیجسلیچر اجلاس طلب کیاہے ۔
اراکین اسمبلی کو روانہ کردہ مکتوب میں انہو ں نے کہاکہ اجلاس سے دور رہنے والوں کے خلاف پارٹی مخالفت انحراف قانون کے تحت کاروائی کرے گی۔
کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہاکہ’’ اپریشن لوٹس ناکام ہوگیا‘ بی جے پی کے چہرے پر یہ ایک زوردار تمانچہ ہے جو غیر قانونی طریقے سے حکومت کو بیدخل کرنے کی کوشش کررہے تھے‘‘۔
سدارامیہ کی مد سے چیف منسٹر نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی۔
چہارشنبہ کے روز ڈرامائی کے طور پرحالات میں تبدیلی اگئی‘ کیونکہ دو آزا د امیداروں کی جانب سے حمایت ہٹائے جانے کے بعد کانگریس جے ڈی( ایس) تذبذب کاشکار ہوگئی تھی۔
راتوں رات تبدیلی ائے ‘ کانگریس ‘ جے ڈی (ایس) لیڈران نے ایک اکثریت کا برقرار رکھا اور کے لئے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی نے سدارامیہ‘ایم بی پاٹل‘ ڈی کے شیوا کمار‘ بی جے ضمیر احمد اور کے جے جارج کی مدد سے باغی اراکین اسمبلی سے بات کی اور معاملے کو روک دیا۔