بی جے پی کوہریانہ میں 5 اور راجستھان میں 6 سیٹوں پر چیلنج کا سامنا

   

نئی دہلی : بی جے پی نے ہریانہ اور راجستھان میں بی جے پی نے تمام سیٹیں جیتی تھیں۔ 2019 میں، پارٹی نے ہریانہ کی تمام سیٹیں جیتی تھیں اور راجستھان میں 24 اور اس کی اتحادی آر ایل پی نے ایک میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کیلئے 370 سیٹوں کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو ہریانہ اور راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مینیجرز کے لیے کچھ پریشان کن لمحات کا باعث بن رہا ہے۔ بی جے پی نے ہریانہ اور راجستھان دونوں ریاستوں میں 2019 میں لوک سبھا کی تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب ووٹوں کی گنتی کے دن سے تقریباً 50 دن پہلے، اندرونی سروے یہ بتا رہے ہیں کہ پارٹی کو ہریانہ میں 5 اور راجستھان میں 6 سیٹوں پر سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جن سیٹوں کو پارٹی کے مینیجرز نے نشان زد کیا ہے وہ ہریانہ کی 10 سیٹوں میں سے روہتک، سونی پت، سرسا، حصار اور کرنال ہیں۔ راجستھان میں، ایک اندرونی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی 25 سیٹوں میں سے باڑمیر، چورو، ناگور، دوسہ، ٹونک اور کرولی پر مقابلہ ہے۔ یہ سروے بتاتے ہیں کہ امیدواروں کیخلاف کچھ واضح دباؤ ہے۔
مثال کے طور پر ہریانہ کی سرسا سیٹ کو لے لیں، جہاں بی جے پی نے راہول گاندھی کے سابق معاون اور دلت قائد اشوک تنور کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ جمعرات کو سرسا میں بی جے پی کی گاڑی پر پتھراؤ اور لاٹھیوں سے مارے جانے کا ویڈیو وائرل ہوا۔ جب کہ تنور نے کہا کہ وہ گاڑی میں نہیں تھے۔ اندرونی سروے میں اٹھائے گئے سرخ نشان کے بارے میں پوچھے جانے پر تنور نے ان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ ہم پچھلی بار کے فیصلہ کو بڑے مارجن سے دہرائیں گے۔‘‘ ریاست میں بی جے پی رہنماؤں کے ایک گروہ نے کہا کہ تشویش کے کئی شعبے ہیں۔ سب سے پہلے، جاٹ ووٹوں کی بیگانگی جو تمام ووٹوں کا تقریباً ایک تہائی بنتی ہے۔ جاٹ کے غصے کا اندازہ ان کے رہنما بیرندر سنگھ اور ان کے بیٹے برجیندر سنگھ کے پارٹی سے نکلنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اگنی پتھ اسکیم کے بارے میں ظاہری غصہ بھی ہے۔ برجیندر سنگھ نے خاص طور پر اس اسکیم کے بارے میں مسئلہ اٹھایا، جس نے فوج کے کئی دہائیوں پرانے بھرتی کے نظام سے ایک بڑی رخصتی کی نشاندہی کی جسے اس وقت بند کردیا گیا تھا جب قومی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جون 2022 میں نئی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ نئی اسکیم جس کو اگنیویر کہا جاتا ہے اس میں صرف چار سال کے لیے بھرتی ہوتی ہے۔