بی جے پی کیلئے 2024 عام انتخابات مسلم مخالف بیانات ہی واحد سہارا

   

سید علی مجتبیٰ
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد یہ قیاس کیا گیا تھا کہ بی جے پی مسلم مخالف بیان بازی سے باز آجائے گی اور اس معاملہ میں اپنے قدم پیچھے ہٹالے گی۔ ساتھ ہی 2024 کے عام انتخابات کے لئے ہندو رائے دہندوں کو اپنی جانب مائل کرنے ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لئے کوئی اور طریقہ ایجاد کرے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور بیان بازی نے سال 2014 سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کو خوب چمکایا جس کا اس کے لیڈروں نے بہت فائدہ اٹھایا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنوبی ہند کی اس اہم ترین ریاست میں بی جے پی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کے حجم کو کم کرنا بی جے پی کے بس میں نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ ہندوستانی معاشی اشاریہ اتنا خراب ہے کہ بی جے پی جیسی پارٹی کے یہاں مسلم نسل کشی کے سواء اور کوئی نعرہ باقی نہیں رہا۔ ویسے بھی بی جے پی سنگھ پریوار کی سربراہ آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے اور سنگھ سے جڑی اکثر تنظیموں اور خود ساختہ سادھو سنتوں نے ملک میں مسلم کشی کے نعرے لگانے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی۔ دھرمسندوں میں بڑی بے شرمی سے مسلمانوں کے قتل عام یا ان کی نسل کشی پر زور دیا گیا اس ضمن میں اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھوک کے اشاریہ میں ہمارا ملک مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت میں کہاں پہنچ گیا ہے۔ ورلڈ ہنگر انڈکس 2020 میں 107 ملکوں میں ہمارے ملک کا نمبر 94 واں تھا۔ ہمارے ملک کی بہ نسبت جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں بشمول پاکستان 88 ، نیپال 73، بنگلہ دیش 75، سری لنکا 64 اور میانمار 78 کا مقام بہتر رہا۔ ہاں صرف افغانستان نے 107 ملکوں میں 99 واں مقام حاصل کرتے ہوئے ہندوستان سے کچھ خراب مظاہرہ کیا چین جسے دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک کہا جاتا ہے وہ ان 17 ملکوں کی فہرست میں شامل رہا جہاں بھوک کی سطح سب سے کم پائی جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں بیروزگار کے عالمی اشاریہ میں ہندوستانی مودی جی کی قیادت میں کہاں کھڑا ہے؟ آپ کو بتادیں کہ فروری 2023 میں ہندوستان میں بیرومگاری کی شرح 7.45 فیصد ہوگئی جبکہ اس سے ایک ماہ قبل جنوری میں بیروزگاری کی شرح 7.14 فیصد تھی۔ ہندوستان میں بیروزگار نوجوانوں کی شرح یعنی 15-24 سال عمر کے نوجوانوں میں پائی جانے والی بیروزگاری کی شرح 24.9 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی علاقہ میں سب سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 14.8 فیصد اور پاکستان میں 9.2 فیصد ہے۔ محنت کشوں کی شراکت کی شرحیں: ہندوستان میں لیبر پارٹسپیشن ریٹس LPR، 46 فیصد ہے جو عالمی سطحوں کے مقابل بہت کم ہے۔ بچوں کے ٹھٹھرجانے کی شرح کے معاملہ میں آپ کو بتادیں کہ ہندوستان میں یہ شرح 17.3 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ملکوں میں سب سے بدتر اور نچلی سطح پر ہے کیونکہ ہندوستان کے گھرانے کئی ایک محرومیوں کا سامنا کرتے ہیں جن میں ناقص غذا، لڑکیوں کی نچلی تعلیمی سطح اور خاندانوں کی غربت وغیرہ شامل ہیں۔ مائیں اکثر تعلیم یافتہ نہیں ہوتی نتیجہ میں وہ اپنی اولاد کو بھی تعلیم سے دور رکھتی ہیں یا ان کی تعلیم سے غفلت برتتی ہیں۔
ملک میں خودکشیوں کے بڑھتے واقعات ہندوستان میں خودکشی کے واقعات میں بھی قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک لاکھ آبادی میں 12 افراد (مرد؍ خواتین) خودکشی؍ خود سوزی کے ذریعہ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں یعنی یہ شرح فی لاکھ افراد میں 12 ہے۔
حال ہی میں ان ممالک کی فہرست جاری کی گئی جہاں کے لوگ بہت زیادہ خوش رہتے ہیں، پرمسرت زندگیاں گذارتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی 137 ملکوں میں ہندوستان کا نمبر 126 واں ہے۔ جنوبی ایشیائی ملکوں میں پاکستان کا نمبر 108، سری لنکا کا 112 اور بنگلہ دیش کا 118 نمبر ہے۔ افغانستان اس فہرست میں سب سے آخر یعنی 137 ویں مقام پر ہے۔ خوشی یا مسرت کے معاملہ میں ہندوستان کا مقام 2013 سے ہر سال گرتا جارہا ہے اور کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران یہ اسکور 3.78 تک پہنچ گیا تھا۔ سال 2023 کی حالیہ تازہ ترین قدر 4.036 بتائی جاتی ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران بے مسرتی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ سماجی ربط کا فقدان تھا کیونکہ کورونا کی عالمی وباء کے دوران لاک ڈاؤنس نے عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی تھی۔ بیروزگاری، مہنگائی اور صحت عامہ کے شعبہ کی حالت قابل رحم تھی۔ ان تمام کا اثر لوگوں کی ذہنی صحت پر پڑا ہے۔ مذکورہ اشارے اچھی طرح سے بتاتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے میں یا ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں بی جے پی حکومت ناکام رہی ہے اور ان اشاریوں کو بہتر بنانے بی جے پی کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہندو رائے دہندوں میں اپنی مقبولیت کیسے برقرار رکھیں گے اس کا جواب صرف مسلم دشمنی اور پاکستان مخالف بیانات استعمال کرنے کے حجم میں اضافہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ 2024 میں بھی وہ (بی جے پی) اسی کا سہارا لے گی لیکن ایک بات ضرور ہیکہ اپوزیشن نے بھی اب جارحانہ تیور اختیار کئے ہیں۔ خاص کر کانگریس نے کرناٹک میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کو بہتر انداز میں چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔