بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم

   

بیکسی ڈھونڈتی ہے اک ساحل
حوصلے چاہتے ہیں سو طوفاں


مغربی بنگال کی سیاست میں ایک بری خبر یہ ہیکہ ترنمول کانگریس کو بغاوت کا سامنا ہے۔ پارٹی کے کئی قائدین چیف منسٹر ممتابنرجی سے ناراض ہوکر بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ مغربی بنگال کی سیاست کو آلودہ کردیا ہے۔ وہ علاقائی پارٹیوں کو کھاجانے کی نیت سے جائز و ناجائز طریقہ سے سیاسی طاقت بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک تبدیلی ہے۔ ترنمول کانگریس چھوڑ کر جانے والے قائدین یا انہیں حکمراں پارٹی ٹی ایم سی کو خیرباد کہہ دینے کیلئے دباؤ ڈال کر بی جے پی اپنی سیاسی قوت کو دوگنا کرنے کی چکر میں ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کررہی ہے جس کا وہ خود ایک دن شکار ہوگی۔ اس زعفرانی پارٹی نے اب تک کئی قومی اور علاقائی پارٹیوں کو کمزور کرنے کی افسوسناک مہم میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی کے کئی قائدین کا تعلق قومی پارٹی کانگریس سے ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے ترنمول کانگریس کے طاقتور لیڈروں کو اپنی صف میں شامل کیا ہے۔ ترنمول کانگریس کے اہم لیڈر سوندر ادھیکاری اور جتیندر تیواری کے پارٹی چھوڑنے کے بعد ٹی ایم سی کے ایک اور رکن اسمبلی سیدھراوتا نے بھی ٹی ایم سی سے استعفیٰ دیا ہے۔ بی جے پی کے تمام قومی قائدین نے اس ریاست کا دورہ کرکے چیف منسٹر ممتابنرجی کے خلاف بی جے پی کارکنوں اور ریاست کے عوام کا ذہن تبدیل کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہیکہ ممتابنرجی کو تیسری میعاد کا موقع نہ دیا جائے۔ چیف منسٹر کی مغربی بنگال کی حیثیت سے ممتابنرجی کی کارکردگی عوام سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد کی ذہن سازی کچھ اس طرح کی جارہی ہے کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترنمول کانگریس کے اندر باغیانہ سرگرمیاں اچھی علامت نہیں ہیں۔ عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہیکہ اب مغربی بنگال کا ہر تیسرا لیڈر بی جے پی میں شامل ہے۔ بی جے پی اس وقت اپنی ہی سیاست چلانا چاہتی ہے۔ اس کے سامنے کوئی پارٹی یا سیاسی طاقت موجود نہ رہے اس کے لئے نت نئے حربے اختیار کرتی جارہی ہے جو ایک مضبوط جمہوریت کیلئے خظرہ ہے۔ بی جے پی یا اس کی قیادت ’’میں میں‘‘ کے موذی مرض میں مبتلاء ہے۔ یہ ’’میں پرستی‘‘ یا خودپرستی ایسی بڑی لعنت ہے کہ اس سے ہر انسان اور سیاسی لیڈر وقت آنے پر کہیں کا نہیں رہتا۔ اس کی مثال بی جے پی کے ہی کئی سینئر قائدین سے لی جاسکتی ہے جو کل تک بی جے پی کیلئے ایک سیاسی طاقت سمجھے جاتے تھے۔ آج وہ بی جے پی کے متروک سیاستداں بن گئے ہیں۔ بی جے پی کو اپنی خودپرستانہ سیاست پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ جمہوری سسٹم میں ہر ایک کو عوام کی مرضی پر چھوڑا جاتا ہے لیکن بی جے پی ہر کام اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہے۔ مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنی جانب کھینچ کر وہ ایک غلط رجحان کو فروغ دے رہی ہے۔ اس ترکیب اور حرکت کا وہ خود بھی شکار ہوسکتی ہے۔ ترنمول کانگریس کو کمزور کرنے کا عمل بہت پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ ٹی ایم سی کے مکل رائے کی علحدگی کے بعد سے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر سویندو ادھیکاری نے ٹی ایم سی چھوڑ دیا ہے تو یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ اس پر چیف منسٹر ممتابنرجی کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے اہم قائدین کی ناراضگی دور کرنے میں انہیں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ وزیرداخلہ امیت شاہ کے دورہ مغربی بنگال کے بعد ٹی ایم سی کے مزید اہم قائدین بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہیکہ ٹی ایم سی کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں مخالف حکمرانی لہر کا شکار بنادیا جائے گا۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کے ساتھ ممتابنرجی کا تلخ رویہ بھی ٹی ایم سی کو کمزور بنانے کا موجب سمجھا جارہا ہے۔ اب ممتابنرجی کو ہی اپنے رائے دہندوں اور ووٹ بنک کو مستحکم کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ جدوجہد اور ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے علاوہ انہیں پارٹی کے ناراض قائدین یا باغیوں و مخالفین کے ساتھ تلخ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ سیاسی حالات حکمت عملی تیار کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔
عوام کی جیب کاٹنے والی حکومت
پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ عوام کی جیب کاٹنے کے ہی مترادف ہے ۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ہندوستان میں ان دو پٹرولیم اشیاء پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ تشویشناک ہے ۔ بی جے پی حکومت نے کورونا وائرس سے ملک کی معیشت پر پڑنے والی ضرب سے باہر نکلنے کے لئے اپنے مالیہ میں اضافہ کا طریقہ یہ نکالا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ٹیکس کے ذریعہ سرکاری خزانہ بھردیا جائے ۔ حکومت اس سطح تک پہونچ گئی ہے کہ وہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے بجائے اس پر من مانی ٹیکس وصول کرکے متوسط عوام پر بھاری بوجھ ڈال رہی ہے ۔ پٹرول کی قیمتیں اس قدر بے قابو کردی گئیں ہیں کہ اب آئیل کمپنیاں بھی بے بس ہوگئی ہیں کیوں کہ اگر ہندوستانی شہری پٹرول پر اگر100 روپئے خرچ کرتا ہے تو اس سے 63 روپئے کی آمدنی مرکز کے خزانہ میں چلی جاتی ہے ۔ خام تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی آئی ہے ۔ اس کے باوجود مودی حکومت نے ہندوستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی نہیں کی ۔ سال 2015-16 ء میں بھی عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تھی لیکن ہندوستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تبدیل نہیں کی گئیں ۔ 2020 ء میں بھی خام تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن اس پر ٹیکسوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی نتیجہ میں ہندوستان کے ہر شہری کی جیب کاٹ کر حکومت اپنی بنیاد بھی مضبوط کررہی ہے ۔ ہندوستان شہری تیل پر اپنی روزانہ کی آمدنی کا 17 فیصد حصہ خرچ کرتا ہے ۔ یہ حالات ہندوستانی عوام کو مزید مشکلات کا شکار بناسکتے ہیں ۔ عوام کو ہی اپنی ہی آمدنی اور خرچ پر غور کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔