بی جے پی کے 28 فیصد امیدوار اپوزیشن کے منحرف ارکان

   

ڈیرک اوبرئین
بی جے پی قائدین بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر امیت شاہ اور مودی جی کے کابینی رفقاء بار بار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اب کی بار 400 پار، اس کے باوجود بی جے پی میں ایسا لگتا ہے کہ اپنے انتخابی مکانات کو لے کر کافی فکرمندی پائی جاتی ہے اور ایک قسم کا خوف پایا جاتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کیلئے بی جے پی نے جن 417 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے ، ان میں ایک چوتھائی ایسے امیدوار ہیں جنہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے انحراف کرتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کے ہر چار امیدواروں میں سے ایک امیدوار ایسا ہے جس نے دوسری جماعت کو خیر باد کہتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوا اور شمولیت کے ساتھ ہی اسے بی جے پی قیادت نے ٹکٹ سے بھی نواز دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ کو بتادیں کہ بی جے پی نے جن 417 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ۔ ان کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 116 (تقریباً 28 فیصد) امیدواروں نے دوسری اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں اس بات کا اندازۃ ضروری ہوگا کہ ان 116 امیدواروں میں سے 37 کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے رہا۔ بتایا جاتا ے کہ اس محاورہ کا استعمال اس وقت شروع ہوا جب ہریانہ کے حلقہ اسمبلی ہوڈال کے ایم ایل اے گیا لال جس نے 1967 ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ کانگریس میں شمولیت اختیار کی ، اس کے بعد گیا لال نے صرف 15 دنوں میں تین پارٹیاں تبدیل کی ۔ آپ کو بتادیں کہ اب سیاستداں اکثر اپنی حقیقی پارٹی سے اگرچہ استعفیٰ دیتے ہیں بجائے اس کے کہ تحریک اعتماد میں یا تحریک عدم اعتماد میں اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کے ۔ 2016 اور 2020 کے درمیان ایسے 433 ارکان پارلیمان و ارکان اسمبلی کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے سیاسی جماعتیں تبدیل کی اور دوبارہ مقابلہ کیا ۔ اس جائزہ سے یہ بات سامنے آئی کہ 405 ارکان اسمبلی جنہوں نے جماعتیں تبدیل کی ان میں سے 182 (تقریباً 45 فیصد) نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔ اسی طرح راجیہ سبھا کے 16 ارکان نے پارٹیاں تبدیل کی، ان میں سے 10 (تقریباً 60 فیصد) بی جے پی میں شامل ہوئے ۔ ذیل میں حالیہ تاریخ کے 5 ایسے واقعات پیش کر رہا ہوں جہاں انحراف کے ذریعہ حکومتیں گرائی گئیں۔ بی جے پی جس کے پاس 105 ارکان تھے ، ایوان میں اکثریت ثابت کی اور حکومت تشکیل دے دی۔
اب بات کرتے ہیں مدھیہ پردیش کی وہاں کمل ناتھ کی زیر قیادت کانگریس حکومت کا زوال جیوتیر ادتیہ سندھیا کے پارلیمنٹ سے استعفیٰ کے ساتھ ہی شروع ہوگیا۔ جیوتیر ادتیہ سندھیا کے بعد ان کے وفادار ارکان اسمبلی بشمول 6 ریاستی وزراء نے اپنے استعفے پیش کردیئے جس کے نتیجہ میں ریاست میں کانگریس حکومت گر گئی اور پھر شیوراج سنگھ چوہان کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ۔ کانگریس سے بے وفائی بلکہ غداری اور بی جے پی سے وفاداری کا سندھیا کو مرکزی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے انعام دیا گیا ۔
منی پور: منی پور اسمبلی انتخابات 2017 میں کانگریس نے 28 اور بی جے پی نے 21 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ 60 رکنی اسمبلی میں اکثریت کیلئے 31 جادوئی عدد تھا، بی جے پی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 30 تھی، ایسے میں بی جے پی نے کانگریس کے ایک ایم ایل اے کو انحراف کیلئے راغب کر کے حکومت بنائی بعد میں کانگریس کے دوسرے 8 ارکان اسمبلی نے بھی بی جے پی کی غیر مشروط تائید کی ۔ بی جے پی کی تائید و حمایت کرنے والے کانگریس ا رکان اسمبلی نے کبھی بھی کانگریس سے استعفیٰ نہیں دیا یا بی جے پی زیر قیادت اتحادی حکومت کی تائید سے متعلق کوئی مکتوب حوالے نہیں کیا ۔ وہ لوگ نے قانون انسداد انحراف سے بچنے کیلئے اپوزیشن بینچیس پر بیٹھے رہے۔
اروناچل پردیش : سال 2014 میں حکومت تشکیل دینے کے بعد کانگریس چیف منسٹر پیما کمانڈو نے 2016 میں اپنے ساتھ 43 ارکان اسمبلی کو لے کر پیپلز پارٹی آف اروناچل پردیش میں شمولیت اختیار کرلی جو بی جے پی کی اتحادی جماعت تھی ۔ سال کے ختم تک پی پی اے کے 33 ارکان اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوئے اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ بعد میں کانگریس کے مزید دو ارکان اسمبلی نے انحراف کرتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔ اس طرح صرف ایک سال کی مدت میں بڑے پیمانہ پر انحراف کے نتیجہ میں کانگریس 47 ارکان سے گھٹ کر صرف ایک ایم ایل اے کی جماعت رہ گئی ۔
مہاراشٹرا: سال 2019 میں بی جے پی نے ریاستی اسمبلی کے 105 حلقوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ شیوسینا کو 56 این سی پی کو 54 اور کانگریس کو 44 حلقوں میں کامیابی ملی ۔ مہاراشٹرا کی 288 رکنی اسمبلی میں اکثریت کیلئے جادوئی عدد 145 سے بی جے پی اور شیوسینا حکومت بنانے والے تھے لیکن حکومت بنانے سے قاصر رہے۔ جب ریاست میں غیر بی جے پی حکومت تشکیل پانا یقینی ہوگیا اور سارے ملک نے دیکھا کہ وہاں صدر راج نافذ کردیا گیا لیکن 23 نومبر 2019 کو صبح 5.47 بجے مرکزی حکومت نے ٹرانزیکشن آف بزنس رول 1961 کے قاعدہ 12 کا استعمال کرتے ہوئے مہاراشٹرا میں نافذ صدر راج ختم کردیا۔ اس کیلئے مرکـزی کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کو اجیت پوار کی تائید و حمایت سے حکومت تشکیل دینے کا موقع ملا لیکن وہ حکومت صرف 80 گھنٹوں تک برقرار رہی ۔ اجیت پوار اور فڈنویس نے استعفیٰ دے دیئے جس کے بعد ریاست میں شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس پر مشتمل مخلوط حکومت وجود میں آئی لیکن جون 2022 میں شیوسینا کے ایک ایم ایل اے ایکناتھ شنڈے نے شیوسینا ارکان اسمبلی کی دو تہائی تعداد کے ساتھ شیوسینا سے اپنا راستہ الگ کرلیا اور خود کو حقیقی شیوسینا قرار دیا۔ اس کے بعد ایکناتھ شنڈے اور ان کے ارکان اسمبلی بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی۔ سابق چیف منسٹر دیویندر فڈنویس کو شنڈے کا نائب (ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا) بہرحال اس طرح کے واقعات کے پیش نظر موجود قانون انسداد انحراف کو سخت سے سخت بنایا جانا چاہئے تاکہ کوئی بھی طاقت عوام کی رائے کا سرقہ نہ کرسکے۔