بے شک ہم نے اس (قرآن) کو اُتارا ہے شب قدر میں ۔ (سورۃ القدر ۔۱)

   

اگرچہ یہاں قرآن مجید کا صراحۃ ذکر نہیں لیکن اَنْزَلْنٰہُ کی ضمیر مفعول کا مرجع بالاتفاق قرآن مجید ہی ہے۔ فرمایا قرآن کسی فرشتے یا کسی انسان کا کلام نہیں ۔ نہ ان میں سے کسی ایک فرد یا مجمع علمی کی تصنیف ہے۔ اس کو اُتارنے والے ہم ہیں، یہ ہمارا کلام ہے۔ اس میں کسی غیر کے اختراع کا کوئی وجود نہیں۔ اور ہم نے اس کو اس رات میں اتارا ہے جو قدرومنزلت کے اعتبار سے بےمثل رات ہے، یا اس رات میں اتارا جو تقدیر ساز ہے، جس کی برکت سے صرف اہل مکہ اور ساکنان حجاز کے مقدر کا ستارہ ہی طلوع نہیں ہوا بلکہ ساری انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوگیا۔ اس رات میں ایسی کتاب نازل ہوئی جس میں بنی نوع انسان کو اپنی پہچان اور اپنے خالق کا عرفان عطا فرمایا۔
علامہ قرطبی نے اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے۔ یعنی اسے شب قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدرومنزلت والی کتاب ، بڑی قدرومنزلت والے رسول پر اور بڑی قدرومنزلت والی امت کے لیے نازل فرمائی۔ اس کی شان نزول یہ بیان کی گئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی امت کی عمروں کو مختصرپایا اور خیال ہوا کہ وہ مختصر عمر میں اتنے اعمال صالحہ نہ کرسکیں گے جتنے پہلی امتوں نے اپنی طویل عمروں میں کیے ہیں۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو ہزار مہینہ سے بہترہے۔(مظہری)